پاک فوج کے جوان ملک کا عظیم اثاثہ ہیں۔ وہ قوم کے سچے معنوں میں محافظ ہیں جو شہریوں کی ہر قیمت پر حفاظت کو یقینی بناتے ہیں اور اس نصب العین کی خاطر وہ اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ وہ ایسے بے لوث جانباز ہیں کہ جنہوں نے ملکی مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر مقدم رکھا ہوا ہے۔ ایک سپاہی کا کام دنیا کے سب سے مشکل کاموں میں سے ایک ہے۔ ان سے توقع کی جاتی یے کہ وہ اپنے چیلنجنگ فرائض کو پورا کریں اور ایک عظیم سپاہی بننے کے لیے غیر معمولی خصوصیات کے حامل ہوں۔ اگرچہ ان کی زندگی بہت سخت ہوتی ہے. مگر وہ تمامتر مشکلات کے باوجود اپنے فرائض کو پورا کرتے ہیں۔
ہمارے ملک کا ہر فرد صرف اسی وجہ سے سکون کی نیند سو پاتا ہے کیونکہ ہمارے نڈر سپاہی اپنے فرائض کی بجا آوری اور ہمارے آرام و سکون کے لئے ہمہ وقت چوکس کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے سپاہی کا پہلا اور سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ بغیر کسی خود غرضی کے اپنے ملک کی خدمت اور حفاظت کرے۔ ایک شخص عمومی طور پر اپنے وطن سے محبت کے جذبے کے تحت اور اس کی حفاظت کے لیے فوج میں شامل ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، پھر بھی وہ اپنے ملک کے لیے کڑی سے کڑی مشکل سے بخوبی نبرد آزما ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، ایک پاکستانی فوجی ملک کی عزت و حرمت کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ وہ دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہے اور ملک کے لیے ہر وقت جان ہتھیلی پر لئے رکھتا ہے – وہ خوشی خوشی ایسا کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ ایک سپاہی کو ہر وقت چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ وہ کبھی بھی ڈیوٹی سے غافل نہیں ہوتا، خواہ وہ سو رہا ہو یا میدان جنگ میں ہو وہ ہر وقت چوکس رہتا ہے۔
یہ ایک اہم قومی ذمہ داری ہے کہ ایک پاکستانی فوجی کا فرض پاکستان میں امن اور آشتی کو برقرار رکھنا بھی ہے۔ وہ ہر پاکستانی کے لئے ایک محفوظ ماحول کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ ہماری فوج کے بہادر جوان سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے بھے ہر وقت تیار رہتے ہیں- وہ ہر صورت حال کو احتیاط سے ہینڈل کرنا سیکھتے ہیں چاہے وہ دہشت گرد حملہ ہو یا قدرتی آفت۔ دوسرے الفاظ میں سویلین حکام کو حالات کو قابو میں لانے کے لیے ان کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔
بدقسمتی سے ملک کے لیے بے پناہ قربانیوں کے باوجود ہماری فوج کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں، خرافات اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کا تذکرہ چند خود غرض اور نا شکرے لوگ کرتے ہیں۔ میں نے ان خرافات اور ان کے جوابات کے بارے میں سوشل میڈیا سے کچھ پوسٹس اور مواد دیکھا اور ان پر تحقیق کی جس نے مجھے ان کو مرتب کرنے اور صحیح یا غلط اور فرضی یا حقیقت کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے قوم کے سامنے پیش کرنے پر مجبور کیا-
قارئین’چند حلقوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ فوجی افسران بجلی کے بل اور اپنی سرکاری رہائش گاہوں کا کرایہ ادا نہیں کرتے جو کہ سراسر غلط ہے۔ حقیقت میں گھر کا کرایہ تمام افسران سے ان کے رینک کے مطابق کاٹا جاتا ہے۔ یعنی درجہ زیادہ تو کرایہ بھی زیادہ۔ تمام افسران بجلی کے بل سرکاری ریٹ کے مطابق ادا کرتے ہیں۔
پھر یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ آرمی افسران کو ریٹائرمنٹ پر مفت گھر مل جاتا ہے جو کہ صریحاً غلط مفروضہ ہے۔ افسران اپنی سروس کے آغاز پر ہاؤسنگ سکیم کی رکنیت حاصل کرتے ہیں اور اپنی سروس کی مدت کے دوران ماہانہ اقساط ادا کرتے ہیں جبکہ باقی رقم ریٹائرمنٹ کے وقت یکمشت ادا کی جاتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت اس ٹرمینل ادائیگی کی مد میں عام طور پر مکمل گریجویٹی بھی استعمال ہو جاتی ہے۔ پاک فوج شفاف نظام اور طریقہ کار کے ذریعے اس کام کو سرانجام دیتی ہے۔ یہ سب سیلف سپورٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے یعنی فوجی اس کی ادائیگی کر کے ہی پلاٹ حاصل کر پاتے ہیں-
یہ ایک اور غلط قیاس آرائ ہے کہ آرمی آفیسرز کو ڈی ایچ اے وغیرہ میں مفت پلاٹ ملتے ہیں جبکہ حقیقت میں تمام افسران اپنے پلاٹوں کے لیے اس مخصوص ڈی ایچ اے کے لیے لاگو نرخوں کے مطابق ادائیگی کرتے ہیں۔ چونکہ رقم بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے انتہائی شفاف نظام کے ذریعے قسطوں کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف افسران کو ہی پلاٹ ملتے ہیں اور نچلے رینک کو ایسی کوئ سہولت نہیں دی جاتی جبکہ پاک فوج کے پاس اپنے نچلے رینک کے لیے بہترین فلاحی نظام موجود ہے جو مکمل طور پر شفاف ہے۔ تمام رینکس کو پلاٹ دیے جاتے ہیں بلکہ نچلے درجے والے فوجیوں کو کم قیمت پر پلاٹ دیے جاتے ہیں۔
چند لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آرمی افسران کو آرمی میسز میں مفت کمرے فراہم کیے جاتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ حقیقت میں تمام رینکس کے افسران کمروں کے چارجز بشمول بجلی اور دیگر تمام اخراجات بھی ادا کرتے ہیں۔ تاہم، ہماری فوج نچلے رینکس والوں کو مفت میسنگ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔پھر یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ فوج کی رہائش گاہوں کی مینٹیننس مفت ہوتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام افسران جب تک فراہم کردہ گھر کے مکین ہوتے ہیں تو وہ تنخواہ کا 5 فیصد ماہانہ بنیادوں پر ہاؤس مینٹیننس کے لیے ادا کرتے ہیں۔
ایک اور مفروضہ یہ بھی ہےکہ آرمی افسران کو انکم ٹیکس اور دیگر تمام ٹیکسوں سے چھوٹ حاصل ہے جو کہ سرا سر غلط ہے۔ تنخواہ بینک میں جمع ہونے سے پہلے ہی افسران کا ٹیکس سرکاری شرح کے مطابق منہا کر لیا جاتا ہےاگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آرمی افسران کو ٹول ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے تو وہ بھی غلط ہے۔ فوجی افسران پرائیویٹ گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے موٹر ویز اور این ایچ اے پلازوں پر تمام ٹول ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ صرف فوجی گاڑیاں مستثنیٰ ہیں بلکل ایسے ہی جیسے ایمبولینس اور سرکاری گاڑیاں وغیرہ۔
چند لوگ کہتے ہیں کہ آرمی افسران کے بچے اے پی ایس، نسٹ اور دیگر آرمی کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں کوئی فیس نہیں دیتے جو کہ غلط مفروضہ ہے۔ تمام رینکس اپنے بچوں کی فیس ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر فوج کے زیر انتظام تعلیمی ادارے اپنی مدد آپ کی بنیاد پر چلائے جا رہے ہیں۔قارئین، پاک فوج ہمارے لئے باعث فخر اور افتخار یے کیونکہ یہ ہندوستانی فوج کے مقابلے میں بہت کم تنخواہوں اور مراعات کے باوجود ملک کے لیے اپنی پوری توانائیوں اور صلاحیتوں کو استعمال کر رہی ہے- ہندوستانی فوج کی تنخواہیں اور مراعات ہماری فوج سے کہیں زیادہ ہیں-
دفاعی خدمات سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی افسران کو سول سروسز میں ان کے ہم منصبوں کے مقابلے میں 29 فیصد زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ پاکستان کی مسلح افواج کے افسران کی تنخواہیں ان کے سویلین ہم منصبوں کے برابر ہیں۔ بھارتی اور پاک فوج کے افسران کی تنخواہوں میں واضح فرق ہے۔ ہندوستانی مسلح افواج کے افسران کو پاک فوج میں ان کے ہم منصبوں سے اوسطاً دو گنا تنخواہ دی جاتی ہے۔ بھارتی لیفٹیننٹ کو پاک فوج کے لیفٹیننٹ سے 7.9 گنا زیادہ تنخواہ مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی مسلح افواج کے سربراہان کو ان کے پاکستانی ہم منصبوں سے 2.5 گنا زیادہ تنخواہ دی جارہی ہے۔ تنخواہوں میں فرق صرف افسروں کے رینکس تک ہی محدود نہیں ہے، ہندوستانی مسلح افواج کے دیگر جونیئر رینکس بھی ہماری فوج کے مساوی رینکس سے دگنی تنخواہیں لے رہے ہیں ۔
ہندوستانی فوجی افسران صرف 18 فیصد یونیفارم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جبکہ ہمارے فوجی افسران اپنے ٹیکس سلیب کے مطابق ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہندوستانی افسران کو دولت اور پراپرٹی ٹیکس سے مستثنیٰ ہے، جبکہ ہمارے فوجی افسران مقررہ وقت کے اندر تمام ٹیکس ادا کرنے کے قوانین کے پابند ہیں۔ہندوستانی فوج کے افسران لامحدود مفت ہوائی اور ریل کے سفروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی فوج کے سپاہی اور ان کے خاندان کے افراد منتخب کلاسوں پر 50% رعایتی کرایوں پر سفر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پاک فوج میں ایسا نہیں ہے۔
بھارتی دفاعی اہلکاروں کو دی جانے والی مراعات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ ہر ضلع میں دستیاب/ تفویض کردہ زمین کا 10% سابق فوجیوں کو کاشت کاری، گھر کی جگہ اور فائدہ مند استعمال کے لیے تفویض کرنے کے لیے مخصوص ہے۔ ہندوستانی سابق فوجیوں کو مختلف ادائیگیوں اور ٹیکسوں سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ بھارتی حکومت نے سابق فوجیوں اور ان کی بیواؤں کو سٹیمپ ڈیوٹی اور ہاؤس ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ قرار دے رکھا ہے۔ ہندوستانی سابق فوجیوں کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھی ایڈوانٹیج دیا جاتا ہے کیونکہ میڈیکل، ڈینٹل، انجینئرنگ، بی فارمیسی، نرسنگ کالجوں، بی ایڈ، اور آئی ٹی آئی/ پولی ٹیکنک وغیرہ میں ان کے لیے 1 سے 5% تک سیٹیں مختص ہیں۔ پاکستان کے برعکس، بھارت میں پرائیویٹ ہاؤس سوسائٹیز ہر قسم کی جائیدادوں پر دفاعی اہلکاروں کو 2 سے 5% تک رعایت دیتی ہیں۔
ہندوستانی مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے اہلکار CSD سے بھی رعایت کے حقدار ہوتے ہیں۔ انکے افسران، جے سی اوز اور سپاہی اپنے اپنے رینک کے مطابق ایک خاص حد تک گروسری آئٹمز مفت حاصل کر سکتے ہیں۔ بھارتی کمیشنڈ افسر کو 11000 روپے ماہانہ، JCOs کو 8000 روپے ماہانہ جبکہ سپاہی کو 5500 روپے ماہانہ کے مفت گروسری آئٹمز حاصل کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ نیز وہ افسران کو سالانہ 100,000 روپے ،جے سی اوز کو 75000 روپے سالانہ اور فوجیوں کو 55000 روپے سالانہ کے مفت مشروبات بھی فراہم کرتے ہیں۔
انہیں کاسمیٹکس پر 40-45% تک رعایت ملتی ہے اور تمام اشیاء مارکیٹ کی قیمت سے 15% کم پر بھی ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ گروسری آئٹمز پر جی ایس ٹی میں 50% چھوٹ بھی حاصل کرتے ہیں۔قارئین، مندرجہ بالا تفصیلات اور اعداد و شمار صاف ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری فوج کو کچھ اضافی نہیں مل رہا ہے بلکہ وہ بہت کم تنخواہوں اور مراعات کے ہوتے ہوئے بھی دشمن سے بھی زیادہ معیاری اور پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہی ہے جو پوری قوم کے لئے باعث فخر و افتخار ہے-