نقطہ نظر

بڑی امی

میری دادی جان جنھیں سب بڑی امی کہا کرتا تھے .جب کبھی سمے کے سفر پر نکلتیں تو میرے بھی سوالوں کا سلسلہ دراز ہو جاتا. انھیں یادوں کی کھڑکی سے پار جھانکنا اچھا لگتا اور مجھے ان یادوں کو سننا وہ بتاتی تھیں کہ جب ان لوگوں نے کشمیر سے ہجرت کا قصد کیا توتین دن تک ان کے لالہ نے انھیں کندھے پر اٹھائے رکھے یہ رشتے اتنے ہی مان اور پیار سے بھرپور ہوتے ہیں اس لیے یادوں پر ان کا ایسے حق بنتا ہے جیسے زندگی پر سانسوں کا ۔ وہ اپنے لالہ کو یاد کرتیں تو ساتھ دوسرے بھائی کا ذکر ان کی آنکھوں میں نمی لے آتا میری الجھن ہمیشہ سوال بن کر ان سے پوچھتیں. اسد ماموں کو کیوں ادھرہی چھوڑ دیا ؟
بڑی امی کی آ واز دکھ میں لپٹی ہوتی .ہنگامہ شدید تھا تو فوری نکلنا تھا ، اسد ماموں دوسرے گاؤں گئے تھے اور اوڑی شہر سے دورتب اماں نے کہا ابھی اسد کو چھوڑجاتے ہیں جلد مسئلہ حل ہوجائے گا تو واپس آ جائیں گے.

وہ مسئلہ تو آج تک حل نہ ہوا اورجو اس امید پر کہیں راستے میں چھوٹ گئے وہ بھی منزل تک پہنچ سکے .پھر تو اسد ماموں کو سب یاد کرتے ہوں گے ؟میں ان کی آنکھوں میں جھانکتا تو مجھے یادوں کا سیل رواں سا بہتا نظر آتا. وہ جیسے تصور کی آنکھ سے سراپا انتظار بھائی کے ساتھ ہمکلام ہوتیں .ان کا لہجہ ٹوٹنے لگتا ’’ اماں تو روز یاد کرتی تھیں اور یہ غم انھیں کھا گیا تھا ہمیں بھی بھائی سے ملنا اس وقت نصیب ہوا جب وہ عمرکی آخری دہلیز پر کھڑا تھا .سچ بتا ؤں تو تمہارے دادا جان کے جانے کے بعد اسد بھائی سے ملنا ایسا تھا جیسے روح کو نئی زندگی مل گئی ہواور جب دادا جان کا زکر ہو تا تو ان کے لہجے میں محبت اور اداسی کا بڑا انوکھا سا امتزاج محسوس ہوتا تھا .یہ محبت کرنے والے سادہ دل سادہ مزاج لوگ عمر بھر کی اس رفاقت کو ہی اپنی کل کائنات مانتے ہیں اور اس کا اقرار بھی بڑی معصومیت سے کر جاتے ہیں
میں ان سے پوچھا کرتا تھا ’’ دادا ابو کے ساتھ زندگی کیسی تھی ؟

وہ بے ساختہ کہتی تھیں ’’زمان صاحب میرا مان تھے ، محبت کرنے والے وفادار، میرا خیال رکھتے اور نخرے بھی اٹھاتے تھے ‘‘ وہ بتاتی تھیں کہ شادی کے وقت وہ بہت کم عمر تھیں مگردادا جان نے جس طرح ان کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز کو طے کیا انھیں کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ ایک نئے رشتے کا بار اٹھائے ہوئے ایک نیا سفر شروع کر چکی ہیں. داداجان کی بیماری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوجاتی تھیں وہ بتاتی تھیں کہ ’’ان کی بیماری کے دوران مجھے لگا ہم ایک روح ہیں مگرروح بھی تو تن سے جدا ہو جاتی ہے ‘‘ ۔دادا ابو کی وفات کے بعد زندگی ان کے لیے کبھی بھی آسان نہ تھی میں خود جب کبھی زندگی کے جھمیلوں سے تھکتا تھا تو ان سے ضرور پوچھا کرتا تھا کہ آپ نے کیسے اس مشکل سفر کو آسان کیا ؟ چھو ٹے بچوں کی ذمہ داری اور جواں عمری کی بیوگی یہ توازخود ایک آزمائش ہے
بڑی امی کہا کرتی تھیں کہ ’’ چھوٹے بچوں نے مجھے شوہر کی موت کا سوگ بھی نہ منانے دیا زمان صاحب کی وفات سے دل مر چکا تھا ، روح بے جان تھی مگر جب ماں کا فرض سامنے ہو تو اپنی ساری خواہشیں بن موت مر جاتی ہیں ۔ جوانی سے بڑھاپے کا سفر کب اور کیسے طے ہوا اس کو یاد بھی کرو تو تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ اچھی ماں بننے کی مشقت ہر دکھ کی راحت بنتی گئی” ۔

بڑی امی نے زندگی کی ہر آزمائش کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ خوش آمدید کہا ہجرت کا دکھ دیکھا ، شوہر سے جدائی کا کرب اٹھایا ، تن تنہا اپنی اولاد کی خوب پرورش کی ، بھائی سے ملنے کی امید کبھی نہ چھوڑی اور پھران کا انتظاررنگ لایا .کچھ لوگ مقدر کے دھنی ہوتے ہیں اگر وہ اپنی زندگی میں آزمائش لکھوا کر لاتے ہیں تو اس کا اجر بھی اسی دنیا میں دیکھ لیتے ہیں بڑی امی بھی انھی لوگوں میں سے تھیں وقت بدلا ان کا صبر رنگ لایا ان کے فکر اور رنج بھی راحت میں بدلے اولاد کی پرورش نے ہر مقام پر سرخرو کیا ۔ وہ بارہا اپنے رب کا شکرگزار ہونے اس کے دربار میں پہنچیں جہاں انسان کو صرف مقدر اور نیت لے کر جاتی ہے حج اور عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی وہ صابرین میں سے تھیں لیکن شکر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں کبھی دل سے نہال ہوتیں تو بتاتیں ’’ بابر نے بڑی خدمت کی اورنسیم نےعزت کما کر سر فخر سے بلند کر دیا بس اللہ نے کرم کر دیا زندگی میں سب سے قیمتی تو یہ محبت وفاداری اور خدمت گزاری ہے ‘‘ایک عمر کی تپسیا کے بعد وہ سکون کی نیند اوڑھے اس مٹی میں آسودہ خاک ہوئیں جس سے ان کو خاص محبت تھی اور اس محبت کا بدل بھی ان کو خوب ملا بڑی امی آپ کو پتا ہے ساری زمان فیملی اور راولاکوٹ والے سب آپ سے خصوصی محبت کرتے ہیں آپ کی قدر کرتے ہیں آپ کی محنت کی ستائش کرتے ہیں-

ایک بار میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ کو لگتا ہے آپ کی زندگی کا مقصد پورا ہوا ؟ تب وہ بڑے وقار کےساتھ مسکرائی تھیں ’’ زندگی اور خاندان نے کڑے امتحان سے گزارا ہے میرا سر کا تاج ، بچوں بڑوں کی محبت ہی میرا غرور ہے میرا مان ہے اب اللہ سے دعا ہے کہ چلتے پھرتے زندگی کا خاتمہ ہوجائے کہنے لگیں ’’عمران جب سے تو نے بتایا ہے کہ مرنے کے بعد مجھے اپنے مرے ہوئے لوگ ملیں گے تو دل ان سے ملنے کو چاھتا ہے- زمان صاحب خواب میں آتے ہیں تو یہ دنیا پھراچھی نہیں لگتی اماں اپنی جوانی کی صورت میں نظر آتی ہیں دل کرتا ہے ان کی گود میں سر رکھ کے سو جاؤں رمضان لالہ کی سفید داڑھی سے کھیلنے کا دل کرتا ہے. بھابھی ، ندیم ، جگا ، ولی بھائی ، صادق ، علی بھائی ، حسن جان ، یعقوب اور سب ہی چلے گئے ہیں سب کو ملنے کا دل کرتا ہے.

وہ جب اپنے پیاروں کی یاد میں گم ہوتیں توساون کی جھڑی جیسے آنسو ان کی آنکھوں میں جمع ہوتے رہتے میں ناراض ہوتا تو آنسو کی بدلی میں مسکراہٹ کے رنگ بھی شامل ہوجاتے میں بولتا جاتا اور ان کے چہرے پر قوس قزح بکھرتی جاتی میں آج بھی ان رنگوں کو جیتا ہوں ان آنسوؤں کو اپنے چہرے پرمحسوس کرتا ہوں میں آج بھی ان کی مشکلوں کو سوچتا ہوں تو اپنی آسائشوں بھری زندگی اجنبی لگتی ہے
میں ان سے ہمیشہ کہتا تھا ’’ مجھ سے یہ جانے مرنے کی باتیں نہ کیا کریں آپ کو نہیں پتا آپ ہمارے لیے کیا ہیں ہم سب آپ سے شدید محبت کرتے ہیں ، آپ ہم سب کے گھروں کی رونق ہیں ۔ خاندان کا مرکز ہیں ۔ آپ نہ رہیں تو ہم سب کا کیا ہو گا ؟اور وہ ہمیشہ کہتی تھیں ’’عمران ! سب نے اسی طرف جانا ہے ۔ اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے .جورب کی طرف لوٹ جاتے ہیں وہ پلٹ کر کبھی نہیں آتے بس ہمیں ایک نئی آس میں باندھ جاتے ہیں کہ ایک دن ہم بھی ان سے جا ملیں گے.
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

اپنا تبصرہ بھیجیں