266

ویمن یونیورسٹی باغ کی تعمیرات اور اس میں رکاوٹیں

تحریر:ڈاکٹر انیس قمر عباسی
جامعات کسی بھی علاقے اور معاشرے کی ترقی کےلیے مرکزی کردار ادا کرتی ہیں ۔یونیورسٹیاں نئے اداروں کی تشکیل، نئی سماجی قدروں کے فروغ اور لوگوں کی جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ معاشی تناظر میں دیکھا جائے تو یونیورسٹیاں نیا علم پیدا کرتی ہیں اور انڈسٹری کے ساتھ مل کر اسے commodify کرتی ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کو علاقائی مسائل کا مکمل ادراک ہونا چاہیے اور کمیونٹی و انڈسٹری کے ساتھ مضبوط روابط استوار کرنے چاہیئں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کے قیام سے مقامی زبان اور ثقافت اور کاروبار پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونگے۔

1980 میں مظفرآباد میں قائم ہونے والی آزادجموں کشمیر یونیورسٹی نے ریاست و ملک بھر سے مختلف الخیال طلبہ و طالبات کو ایک جگہ پڑھنے ، رہنے اور ایک دوسرے سے معاملات کرنے کا موقع دیا جس کی وجہ سے مختلف علاقوں کے درمیان ایک رابطہ و تعلق پیدا ہو ا، دوستیاں اور رشتہ داریاں قائم ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ مظفرآباد شہر کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ اسی طرح باغ میں قائم ہونے والی ویمن یونیورسٹی آزاد جموں کشمیر باغ نےبھی اپنے قیام کے ساتھ مقامی ثقافت، کلچر ، زبان ، رہن سہن، اور کاروبار میں بے پناہ تبدیلی لائی۔ نئی مارکیٹیں ، کاروبار، ہاسٹلز ، ہوٹلز اور ہر طرح کےکاروبار میں ترقی ہوئی ۔ ؎

اس یونیورسٹی کی زمین اور تعمیرات تنازعات کا شکار رہی ہیں ۔ابتداً کچھ سال تو اس ادارے کے لیے کوئی زمین ہی میسر نہ تھی، کبھی ایک جگہ سروے ، کبھی دوسری جگہ پر موزونیت کی تلاش، عدالتوں میں جاری کیسز اور دیگر مسائل کی وجہ سے کہیں بھی زمین نہ مل سکی۔ تاہم موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبد الحمید کی خصوصی کاوشوں کی وجہ سے یونیورسٹی کی زمین کے لیے حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کی سربراہی اس وقت کے وزیر حکومت سردار میر اکبر خان صاحب کر رہے تھے۔ اس کمیٹی نے اپنی ورکنگ کے بعد بالآخر بنی پساری کے مقام پر 2000 کنال سے زاہد اراضی جو کہ خالصہ سرکار اور شاملات پر مشتمل تھی کی نشاندہی کی اور اس کو یو نیورسٹی کے لیے موزوں قرار دیا۔ تاہم اس زمین سے بھی قابل تعمیر حصہ محض 500 کنال ہے اور باقی جگہوں پر زمین ہموار نہ ہونے کی وجہ سے تعمیرات ممکن نہیں یا اس کے لیے بے پناہ بجٹ چاہیے ہوتا ہے۔

اس کے بعد حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے اس زمین کو یونیورسٹی کے نام پر منتقل کیا گیا اور اس کے بعد اس کو یونیورسٹی انتظامیہ کو حوالہ کر دی گئی۔ یوں ایک سرکاری یونیورسٹی کو اپنی زمین حکومت کی طرف سے مل گئی۔ اس کے بعدجامعہ کی تعمیر کے سلسلہ میں عدالت عظمیٰ نے بھی بھرپور کردار ادا کیا اور تمام اداروں کو اس بات کا پابند بنایا کہ یونیورسٹی کی تعمیر اور زمین کے سلسلہ میں کسی قسمم کی رکاوٹوں کو برداشت نہ کیا جائے تاکہ یہ قومی نوعیت کا منصوبہ جلد از جلد تکمیل پا سکے۔ اس کے بعد یونیورسٹی کو الاٹ شدہ زمین کی حد بندی اور اس کے لیے باونڈری وال کی تعمیر کا پراجیکٹ حکومت آزاد کشمیر کے تعاون سے شروع کیا گیا کیونکہ کسی بھی ادارے کے لیے اپنی حدود کا تعین ضروری ہوتا ہے اور خاص کر ویمن یونیورسٹی جیسے حساس ادارے کے لیے باونڈری وال کی تعمیر انتہائی ضروری ہوتی ہے کیونکہ سیکیورٹی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہمیشہ کسی ناخوشگوار واقعہ کا اندیشہ رہتا ہے ۔

قومی نوعیت کے اداروں کا مقامی کمیونٹی اور افراد کے ساتھ بھی ایک باہمی لیزان اور رابطہ رہتا ہے کیونکہ ان اداروں کے سب سے بڑے بینیفشری بھی مقامی لوگ اور کمیونٹی ہی ہوتی۔ یہ ساری زمین یونیورسٹی جو کہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے کو مل جانے کے بعد بھی مقامی کمیونٹی کے ضروریات کو دیکھتے ہوے ان کے حقوق کا مکمل خیال رکھا گیا۔ اور ان کے لیے وہم تمام حقوق آسائش جیسا کہ قبرستان کے لیے جگہ، سکول کی زمین، سڑکوں کے لیے زمین ، اضافی قبرستان کے لیے جگہ، جنازہ گاہ کے لیے جگہ، پانی کے چشموں تک رسائی اور دیگر تمام سہولتوں کو مقامی کمیونٹی کے لیے نہ صرف پہلے کی طرز پر رکھا گیا بلکہ اضافی جگہیں بھی اس مد میں رکھی گئی اور مقامی کمیونٹی کو اس بات کا مکمل یقین دلایا گیا کہ وہ یہ تما م جگہیں متعلقہ مقاصد کے لیےہمیشہ استعمال کر سکیں گے۔

یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے اس وقت دو پراجیکٹس زیر کار ہیں جن میں اکیڈمک بلاکس، ہاسٹلز، ایڈمنسٹریشن بلاک، لائبریری، کیفے ٹیریا، میڈیکل سنٹر ، ملٹی پرپز ہال اور دیگر عمارتیں شامل ہیں اور ان دو پراجیکٹس کی مالیت 3 ارب روپے سے زاہد کی بنتی ہے جو کہ اس جگہ پر خرچ ہو رہی ہے۔ ان تعمیرات کا ٹھیکہ قومی و بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق قومی کمپنیوں کو دیا گیا ہے جن کے ساتھ ساتھ کنسلٹنٹس بھی ہیں جو اس تمام تعمیر کا ڈیزائن اور مانیٹرنگ کر رہے ہیں ۔ یونیورسٹی کی طرف سے بھی دونوں پراجیکٹس کے لیے انجینئر ز اور دیگر سٹاف موجود ہے جو روزانہ کی بنیاد پر کام کی کوالٹی اور تصریحات کے مطابق ہونے کو یقینی بنا رہا ہے ۔ مزید براں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان بھی ان پراجیکٹس کو براہ راست مانیٹر کر رہا ہے ۔

ان تمام حقائق کے باوجود چند افراد اس ادارہ اور اس کی تعمیر کے خلاف ایک بے بنیاد مہم جوئی کر رہے ہیں اور رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ مقامی کمیونٹی کے تمام شکوک و شہبات کو دور کرنے کے لیے باغ کی سول سوسائٹی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جس کو یہ تمام حقائق سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی ایک سرکاری ادارہ ہے اور اس کو زمین بھی سرکار کی طرف سے الاٹ کی گئی ہے جو کسی بھی فرد یا عہدے کے نام نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انفرادی طور پر اس زمین کا کوئی دوسرا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے قومی اداروں کی تعمیر میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں کیونکہ مستقبل میں ان اداروں کا سب سے زیادہ فائدہ اسی مقامی کمیونٹی کو ہو گا۔ طالبات کو ایک محفوظ اور معیاری ماحول میسر ہو گا جہاں وہ اپنے علم و تحقیق کی پیاس بجھا سکیں گی اور پھر علاقائی اور قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں