40

انوار الحق کا ایک سالہ دور حکومت، انتشار، افراتفری اور بغیر ترقی کے گزر گیا، حکومت ہر میدان میں بری طرح فلاپ

اسلام آباد(سٹیٹ ویوز)آزادکشمیر میں وزیراعظم چوہدری انوارالحق حکومت کا ایک سال مکمل ، افراتفری، بے چینی، فکری اور نظریاتی انتشار عروج پر، سیاسی نظام جمود کا شکار، سیاسی جماعتیں غیر فعال، ترقیاتی عمل ٹھپ ، سرکاری ملازمین، ایکشن کمیٹیاں سراپا احتجاج،بلدیاتی نمائندگان بھی سڑکوں پر ،ایک سال گزر گیا،

اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اور قائمہ کمیٹیاں بھی نہ بن سکی،پارلیمانی نظام عملا مفلوج ہو کر رہ گیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم چوہدری انوار الحق کا انتخاب 20 اپریل 2023 کو سردار تنویر الیاس خان کی عدالتی فیصلے کے ذریعے نا اہلی کے بعد رات کی تاریکی میں تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت سے عمل میں لایا گیا ۔

چوہدری انوار الحق نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالتے ہی مخلوط حکومت کو عوام کے بجائے ایم ایل ایز کی حکومت قراردیا اور ایم ایل ایز کو سیاسی مفادات مراعات سے نوازنے کے لیے نوازشات کا لامتناعی سلسلہ شروع کیا، ترقیاتی فنڈ زسمیت تقرریوں و تبادلوں کے لیے لوگوں کو ایم ایل ایز کی طرف جانے اور ان سے تحریری سفارش حاصل کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ایم ایل ایز کی حکومت نے عوامی مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا، بنیادی عوامی مسائل پر ممبران اسمبلی کی خاموشی نے سیاسی افق پر انار کی اور خلیج پیدا کی جسے خطہ میں سرگرم پاکستان مخالف اور خود مختار کشمیر کے حامی گروپوں نے بنیادی مسائل کی آڑ لے کر عوامی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دے دیں اور آزاد کشمیر کے عوام کو ریاست پاکستان کیخلاف اکسایا۔سیاسی جماعتوں کو غیر متعلق کر دیا گیا،

سیاسی قیادت بھی خاموش ہو گئی جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر کے اندر نظریاتی اور فکری انتشار پھیلا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد کا بینہ کی تشکیل میں غیر ضروری تاخیر کی گئی۔ 2 ماہ بعد کا بینہ بنائی اور 6 ماہ تک پورٹ فولیوز کا معاملہ زیر التوا رکھا جس کی وجہ سے حکومتی امور بری طرح متاثر ہوئے ۔

آزاد کشمیر میں میرٹ کے قیام کیلئے تھرڈ پارٹی کے ذریعے بھرتیوں کے قانون اور نظام کو ختم کر دیا گیا ۔ تعلیمی اداروں میں معلمین اور معلمات کو پسند و نا پسندکی بنیاد پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز مالی بحران کا شکار ہیں، جامعات کئی ماہ تک بندر ہیں ۔

وزارت عظمی کے ایک سال کے دوران دارالحکومت مظفر آباد میں صرف 27 دن گزارے دیگر تمام وقت اسلام آباد میں رہے جہاں نو تعمیر بلاک میں اپنے سپیکر شپ کے دور میں بنائے گئے سپیکر چیمبر کو سرکاری معاملات کے لیے استعمال کیا، مظفر آباد کے وزیر اعظم ہائوس میں قیام کے بجائے سپیکر ہاس کو ہی مسکن بنایا، یوں ان کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر اٹھنے والے اخراجات پہلے سے بہت زیادہ ہو گئے۔

سرکاری گاڑیوں کے غیر ضروری استعمال، دفاتر میں حاضری اور کرپشن کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں عملا نا کام ہوئیں ۔آزاد کشمیر میں برسوں سے تعینات ایڈ ہاک رعارضی اور معاہدہ جاتی ملازمین کونوکریوں سے فارغ کیا، برسوں تک فرائض سر انجام دینے والوں کو روزگار سے محروم کر کے خطہ کے اندر احتجاج کا ماحول پیدا کیا ۔

چوہدری انوار الحق کے دور حکومت میں تعلیم یافتہ بے روز گار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے آزاد کشمیر میں قائم سب سے بڑے ادارے پبلک سروس کمیشن کو 8 ماہ تک غیر فعال رکھ کر میرٹ کا قتل عام کیا گیا، پبلک سروس کمیشن کی تشکیل نو میں تاخیرسے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور اس دوران کئی نو جوان کی ملازمت کیلئے عمر کی حد گزر جانے کے باعث نااہل ہو گئے۔

وزیر اعظم نے احتساب بیورو میں مستقل چیئرمین کی تعیناتی کا عمل بھی طویل عرصہ روکے رکھا، جس سے خطہ میں احتساب کا عمل عملا ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، بعد ازاں اپنے وکیل دوست مشتاق جنجوعہ کو پہلے چیف پراسیکیوٹر احتساب بیور و تعینات کیا اور پھر چیئر مین کا عہدہ دے کر سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کا آغاز کیا گیا۔

اپنی حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا کے اشتہار بند کر کے اخباری اداروں کو انتقام کا نشانہ بنایا، میڈیا پر پابندیاں عائدکیں اور صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ محکمہ اطلاعات کے اشتہارات کا بجٹ دو گنا کر کے اسے ذاتی تشہیر کے لیے مختص کر دیا اور اپنی تشہیر بغیر کسی کار کردگی کے اشتہارات کے ذریعے شروع کردی۔

اس سے پہلے بحیثیت سپیکر چوہدری انوار الحق نے بغیر کسی بزنس کے قانون ساز اسمبلی کا اجلاس 4 ماہ تک جاری رکھا اور جب خود وزیر اعظم بن گئے تو اسمبلی کا اجلاس بلانے سے گریز کیا تا کہ جوابد ہی نہ ہو سکے۔بجٹ اجلاس صرف ایک دن ہوا اور ایک ہی دن میں بجٹ پاس ہوا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، جو بجٹ کا بینہ میں منظور ہوا وہ اسمبلی میں پیش ہی نہیں ہوا۔

نارمل اور ترقیاتی میزانیہ کی دستاویزات طباعت کے بعد منسوخ کر دی گئیں، بار بار بجٹ دستاویزات بنتی اور ختم ہوتی رہیں اور تادم تحریرنارمل اور ترقیاتی میزانیہ کی کوئی مستند دستاویز دستیاب یا موجود ہی نہیں۔قانون ساز اسمبلی کے ایک سال کے دوران صرف 3 اجلاس ہوئے جن کا دورانیہ فقط آٹھ دنوں پر محیط ہے۔

قانون ساز اسمبلی میں پبلک اکانٹس کمیٹی سمیت دیگر مجالس قائمہ کا وجود نہیں، ایک سال گزرنے کے باوجود کمیٹیوں کا قائم نہ ہونا قانون ساز اسمبلی کو مفلوج کرنے کے مترادف ہے۔قانون ساز اسمبلی کا اجلاس نہ ہونا اور کابینہ کے اجلاس منعقد کرنے کے بجائے بائی سرکولیشن اہم فیصلے کرنا معمول بن گیا ہے۔

وزیر اعظم نے رولز تبدیل کر کے ترقیاتی بجٹ کے استعمال کے لیے بلاک پروویژن کی مد تخلیق کی اور تمام ترقیاتی فنڈ ز اس مد میں منتقل کر دیئے، بلاک پروویژن سے فنڈ ز تقسیم و جاری کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھا۔ بلاک پروویژن پاکستان میں مختلف اعلی عدالتوں سے غیر قانونی قرار دی جا چکی ہے۔حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث خطہ میں ترقیاتی عمل عملا رک چکا ہے،

سابق دور حکومت میں شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کی ایلوکیشن زیرو کر دی گئی ہے یوں یہ منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں، پی پی ایچ اور ڈویلپمنٹ کے محکمہ جات کو غیر ضروری مداخلت سے مفلوج کر دیا گیا ہے اور ان محکمہ جات کے بنیادی مقاصد ہی تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔

آزاد کشمیر میں 32 سال کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا جس کے ذریعے بلدیاتی نمائندگان منتخب ہوئے، اصولی طور پر ترقیاتی بجٹ اور مقامی مسائل کے حل کے لیے فنڈ ز نو منتخب بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ ہونے چاہئیں مگر موجودہ حکومت نے ممبران اسمبلی کے خوف سے نو منتخب بلدیاتی اداروں اور نمائندگان کو فنڈز اور اختیارات سے محروم رکھا ہوا ہے، واضح اعلانات اور وعدوں کے باوجود بلدیاتی اداروں کو مناسب فنڈز جاری نہ کرنا صریحا نا انصافی اور سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔

حکومت آزاد کشمیر مسئلہ کشمیر کو قومی و بین الاقوامی میڈیا پر اجاگر کرنے کے لیے مکمل طور پر خاموش ہے، لبریشن کمیشن کے ادارے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ آزاد کشمیر میں اس وقت یہ واحد ادارہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کی جدوجہد آزادی کو عملا زندہ رکھے ہوئے ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں