55

کشمیر ادبی فورم سے پولیس کی خوشنودی تک کا سفر

تحریر:ارسلان شانی
گذشتہ دو دن سے عباسپور لائیبریری کو لے کر سوشل میڈیا پر کافی بحث و مباحثے جاری ہیں۔ کشمیر ادبی فورم کی طرف سے اس سارے واقع کی وضاحت بھی سامنے آئی ہے۔ اس وضاحت کو پڑھنے کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ اپنی رائے عوام کے سامنے رکھی جائے۔
عباسپور جیسے شہر میں کشمیر ادبی فورم انتہائی مثبت اقدام تھا اور سب سے مثبت بات یہ تھی کہ بلا تفریق جنس اس ادبی فورم کی بنیادیں استوار کی گئی۔ جہاں اس اقدام کو تمام ترقی پسند قوتوں نے سراہا وہاں ہی جب لائیبریری بنانے کا آغاز ہوا تو بڑھ چڑھ کر کتب ارسال کرنے سمیت ڈونیشن میں حصہ لیا۔ مجھے ذاتی طور پر بے حد خوشی ہوئی تھی کیونکہ اس فورم کی قیادت کسی رجعتی عناصر کے ہاتھوں میں نہیں تھی بلکہ لبریشن فرنٹ اور ترقی پسند خیالات کی حامل خواتین کے ہاتھوں میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی بساط کے مطابق پوری کوشش کی کہ اس فورم کو ہمیشہ قائم رہنا چاہیے۔

پہلا پروگرام جو جنسی ہراسمنٹ کے موضوع پر رکھا گیا تھا بہت ہی اعلیٰ کاوش تھی لیکن اس پروگرام کی تشہیر کے لیے جس راستے کا انتخاب کیا گیا اس نے ہمارے ذہنوں میں بھی بہت سے سوالات پیدا کیے۔ ایک شخص کو موٹیویشنل سپیکر کے طور پر بلایا گیا جس نے رونے دھونے کے علاؤہ کچھ نہیں کیا۔ بلکہ وہاں ہی ایک خاتون نے سٹیج پر بات کرتے ہوئے اس کی کافی کلاس لے لی۔ یوں سمجھ لیں کہ وہ شخص قاسم علی شاہ کو اپنا رول ماڈل بنائے بیٹھا تھا۔ اس نے جنسی ہراسانی کو اخلاقی مسئلہ قرار دے کر حقائق سے ہی توجہ ہٹا دی۔ ہمیں اس وقت اندازہ ہوا کہ یہ سستی شہرت کی کوشش کہیں اس مثبت ادبی فورم کو ذاتی مقاصد تک محدود نہ کر دے۔ اس کے بعد جب ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں نہ صرف ہم نے مکمل سپورٹ کیا بلکہ اس میں ہمارے شاعروں نے بھی کلام پیش کیئے۔ جہاں یہ عباسپور کی دھرتی میں ایک اہم پیش رفت تھی وہاں پہ ادبی فورم کی انتطامیہ جن میں لبریشن فرنٹ کے رہنما سمیت ان کی ٹیم موجود تھی انھوں نے پی ٹی آئی کے سرگرم رہنماء جناب مرتضیٰ صاحب کو مہمان خصوصی بلا کر ہمیں مزید حیرت میں ڈال دیا کہ ادبی فورم کی انتظامیہ دائیں بازوں کی قیادت کی ہمدردیوں کے ذریعے شہرت حاصل کرنے میں مصروف عمل ہے نہ کہ اس ادب کے فروغ کے لیے جس نے معاشرے کے نوجوانوں کے لیے مشغل راہ بننا ہے۔

ایک اور پوائنٹ جو ادبی فورم انتظامیہ کی کمزوری کی وضاحت کر رہا وہ یہ کہ اس فورم کی لائیبریری جس کی بنیاد صنفی امتیاز سے بالاتر ہو کر رکھی گئی تھی اس نے لائیبریری میں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ وقت کا تعین کر کے رجعتی سوچ کو تقویت دی۔ پھر اسی لائبر یری میں سٹڈی سرکل پر پابندی عائد کی گئی۔ اب یہ پوائنٹ ڈسکس کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ کوئی بھی کام کرنے کے لیے جرآت مند ہونا ضروری ہے۔ جب کوئی بھی قیادت جرآت مند فیصلے کرنے کے بجائے بالادست طبقات کی خوشنودی کے ذریعے اپنے ممنون مقاصد حاصل کرنے میں لگ جائے تو فر نتیجہ یہی نکلتا ہے جو تھانے میں لائیبریری کی صورت میں واضح ہوا۔ اب میں آتا ہوں عباسپور تھانے میں لائیبریری کی بنیادیں استوار کرنے کی اس وضاحت کی طرف جس نے واضح طور پر ادبی فورم انتظامیہ کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ ریاست کی خوشنودی کو ڈھٹائی سے اچھا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کتابوں کے عالمی دن کے موقع پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسی لائیبریری میں یا کشمیر ادبی فورم کے زیرِ اہتمام پروگرام کا انعقاد کیا جاتا جس میں لائیبریری کی اہمیت و افادیت اور اتنے عرصے سے قائم لائیبریری کو بہتر بنانے سمیت لائیبریری کے غیر فعال ہونے، رجعتی قوتوں کی مداخلت سمیت دیگر مسائل کی وجوہات کھوجتے ہوئے حل کی طرف بڑھا جاتالیکن اسی دن عباسپور کے تھانے میں لائیبریری کی بنیاد رکھی گئی۔ کشمیر ادبی فورم کے سربراہ اس شخص کے ساتھ مل کر افتتاح کر رہے ہیں جس نے حقائق پر مبنی کتب پر پابندی عائد کرنے اور اس پابندی پر عمل درآمد کروانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ایک ذمہ دار قوم پرست رہنماء کے بقول کہ سب سے زیادہ اسی آفیسر نے تاریخ کی کتب کو ضبط کیا اور سٹالز پر چھاپے مارے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ادبی فورم کی نا اہل انتطامیہ کی بدولت آج وہ فورم صرف ریاستی مشینری کی خوشنودی تک محصور ہوتا جا رہا ہے۔

قیدیوں کو خودکشی کرنے سے روکنے اور بڑے مجرم بننے سے روکنے کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے اس سارے عمل کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ تھانے میں پولیس رویہ اور بدترین تشدد قیدیوں کو مجرم بنانے کی طرف گامزن کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پولیس کی حراست میں کوئی شخص تشدد کے ذریعے انتقال کر جاتا ہے تو اس قتل کو خودکشی قرار دے دیا جاتا ہےاگر تو مقصد پولیس رویہ تبدیل کرنا ہوتا تو بات سمجھ آتی تھی لیکن قیدیوں کو پولیس لائیبریری کی کتب سٹڈی کے لیے دینے کا مطلب یہی ہے کہ جھوٹ پر مبنی مواد کے ذریعے قیدیوں کو اپنے کنٹرول میں کر کے ریاست اپنے مقاصد حاصل کرے۔

جب ہم گرفتار ہوئے تو نظریاتی دوستوں نے ہمیں کتب فراہم کی جن کے ذریعے ہم نے بہت کچھ سیکھا لیکن اب باہر سے کتب ارسال کرنے پر اسی لائیبریری کو بنیاد بنا کر پابندی عائد کر دی جائے گی کہ جب لائیبریری موجود ہے تو باہر سے کتب کیوں ارسال کی جانے کی اجازت دی جائے۔سب سے اہم سوال کہ ایک پبلک لائبریری کی موجودگی میں تھانے میں الگ سے لائیبریری بنانا ہی کیوں ضروری ہے۔ پہلے اس پبلک لائبریری کو فعال بنایا جانا چاہیے تھا۔ اب وضاحت کی جا رہی ہے کہ اس کو نجی تعلیمی ادارے میں شفٹ کیا گیا ہے۔ اس پہ بھی ادبی فورم کی انتطامیہ کے ممبرز کے موقف الگ الگ ہیں۔ ایک کہ رہا ہے کہ نجی ادارے میں ہے دوسرا کہ رہا ہے روم چینج کیا ہے لائبریری اسی عمارت میں ہے جہاں پہلے تھی۔ نجی تعلیمی ادارے کے اونر سے جب ہم نے رابطہ کیا تو ان کا بھی کہنا تھا اس طرح کی کوئی کتابیں ادارے کو نہیں دی گئی اور تھانے میں الگ لائبریری بنائی گئی ہے۔ لیکن تھانے میں موجود کتب تو اسی لائیبریری کی ہیں۔

خیر اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو بھی پبلک لائبریری کو مکمل فعال بنانے کے بعد پبلک کے لیے اوپن کرنا پہلا کام تھا۔ اس سارے کام کو پس پشت ڈال کر پولیس آفیسران کے ساتھ فوٹو سیشن کے ذریعے تعریفوں کے پل باندھنے سے مقاصد واضح ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں جب کشمیر میں سول نافرمانی کی تحریک چل رہی ہے اور گزشتہ ایک سال سے کشمیر میں بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ چل رہا ہے وہاں ریاست کے سب سے رجعتی ادارے پولیس جو عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے آزادی پسندوں و ترقی پسندوں پر تشدد و انکے قتل جیسے اقدامات میں ملوث ہے کے متعلق رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش خود اپنے اندر ایک سوالیہ نشان ہے.ان حالات میں کشمیر کی عوام گزشتہ ایک سال سے انہی ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل جدوجہد کے میدان میں ہے جسکی مثال اس خطے میں اس سے پہلے نہیں دی جا سکتی اس وقت بجائے عوامی صفوں میں اتر کے انہیں منظم کرنے کے ریاست کی کاسہ لیسی کرنا عوامی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے.

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں پولیس کے ادارے کے کردار سے کون واقف نہیں اور وہ سربراہان جو اس لائیبریری کے افتتاح کے لیے بلائے گئے ان میں سے ایک خود کچھ عرصہ پہلے آزادی پسند رہنماء نعیم بٹ کے قتل میں ملوث تھا. ان حالات میں ریاست کے کسی بھی ادارے کے لیے عوامی ہمدردی جیتنے کی کوشش نہ صرف ریاست کی چاکری ہے بلکہ اس خطے کے شہیدوں و مزاحمت کاروں سے غداری ہے.جب یہ جرائم جو ادب اور ترقی پسندی کے نام پر ریاست کے حق میں جا رہے ہوں اور کوئی تنقید کرے تو ذاتیات پر اترنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک خاتون صحافی جس نے اس خبر کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پہ اپ لوڈ کیا تو کشمیر ادبی فورم کی انتظامیہ اس کو دھمکیاں دینے لگی کہ پوسٹ ڈیلیٹ کرے ورنہ اس کے ساتھ بہت برا ہو گا۔

ہماری جدوجہد کسی فرد کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کو اس دھرتی پر ناسور سمجھتے ہیں۔ اسی نظام کو بدلنے کے لیے ناقابلِ مصالحت جدوجہد ہمارا جینا اور مرنا ہے۔ ہر وہ کام جو اس نظام اور اس کے حواریوں کے حق میں ہو گا ہم اس کی نہ صرف مخالفت کریں گے بلکہ اس عمل کے خلاف جدوجہد بھی جاری رکھیں گے۔ اور ہر اس عمل کی حمایت کریں گے جو اس سرمائے کے نظام کو مٹانے کی طرف پیش قدمی ثابت ہو۔ اس فورم کی قیادت پر سوال اٹھانا کوئی ذاتی رنجش نہیں بلکہ اس کردار کو عوام کی عدالت میں واضح کرنا ہے جو شعوری یا لاشعوری طور پر حکمران طبقات کے حق میں جا رہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر وہ کام اس معاشرے کے لیے ناسور بننے کی طرف جائے گا جس میں حکمران طبقات اور ریاست کے چہرے پر پردہ پوشی کی جائے گی۔

یہی حکمران ہیں جنہوں نے ہر دور میں شعراء و ادیبوں کو کال کوٹھری میں ڈالا۔ اس ادب کو پرموٹ ہونے سے روکنے کی کوشش کری جس نے نوجوانوں میں کمند ڈالنے کا سبب بننا تھا۔ ہمیں ادب کے نام پر ظلم کو جسٹیفائی کرنے کی ناکام کوشش کے بجائے ادب کے ذریعے حقائق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سارے عمل پر ہمارے رائے کو ذاتی حیثیت میں لینے کے بجائے غور و فکر کرتے ہوئے ادبی فورم کی انتظامیہ پبلک لائبریری کو ریاستی مداخلت کے بغیر عوام کے لئے اوپن کرنے کی طرف بڑھیں گی۔ اور ریاست کے ہر وار کو ناکام بنانے میں کردار ادا کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں