48

“شبیر ناقد کا جہان تلمیحات علم و ادب میں وقیع اضافہ

تحریر : ثمن لیاقت
علم و ادب سے والہانہ شغف و وابستگی رکھنے والی اور میلسی میں تحقیق و تنقید جیسی مشکل صنف کی دنیا میں اپنا منفرد مقام بنانے والی پہلی مصنفہ صائمہ ممتاز صاحبہ ہیں۔ جن کی حال ہی میں تحقیق و تنقید پر مبنی نثری کاوش “شبیر ناقد کا جہان تلمیحات” کے نام سے منصہ شہود پر آ ئی ہے.اس کتاب کا ٹائٹل ہی قاری کے دل کو موہ لیتا ہے “شبیر ناقد کا جہان تلمیحات “. اس ٹائٹل سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ شبیر ناقد کی شاعری میں کس قدر تلمیحات پائی جاتی ہیں۔ شبیر ناقد تونسہ شریف کی شان ہیں۔ ان کی جملہ تصانیف شعری و نثری ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔

شبیر ناقد کی شاعری میں تلمیحات کا وسیع جہاں پایا جاتا ہے جس جہان میں غوطہ زن ہو کر مصنفہ نے شبیر ناقد کے 21 شعری مجموعوں میں موجود منتخب مذہبی، تاریخی، مکانی وجغرافیائی، لوک داستانوی اور ادبی تلمیحات کے واقعات کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔زیر نظر کتاب 260 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا انتساب مصنفہ نے بہت خوبصورتی سے اپنے والدین کے نام لکھا ہے۔ اس کتاب کی شان و شوکت میں مزید اضافہ ماہرین علم و ادب کی قیمتی آراء سے ہوتا ہے ۔ ان شخصیات میں ڈاکٹر سید قاسم جلال ، ڈاکٹر مختار ظفر، ڈاکٹر شکیل پتافی، پروفیسر جمیل احمد عدیل اور مستقبل کے ڈاکٹر پروفیسر شفیق الرحمن الہ آبادی شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں مصنفہ کا مفصل تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔مصنفہ کی تحقیقی و تنقیدی رسائی کے ضمن میں ڈاکٹر مختار ظفر نے ان کے لیے اس خوبصورت شعر کا حوالہ دیا ہے۔
جو دستک ہی نہ دے اس پر در کرم کیا کھلتا
وہی کچھ پا لیتا ہے جو سرگرم تقاضا ہو

زیر نظر کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول میں بقول شفیق الرحمان الہ آبادی یونان صغیر کا نقاد کبیر شبیر ناقد صاحب کا مکمل تعارف پیش کیا گیا ہے۔باب دوم تلمیح کے مفاہیم اور روایت پر مشتمل ہے۔ جس میں تلمیح کے معنی کو مفصل بیان کیا گیا ہے یعنی بڑی سے بڑی بات کو قلیل الفاظ میں سمو دینا تلمیح کا خاصا ہے۔ تلمیح کی حیثیت رمز و اشارات یا علامت کی سی ہے جن کی مدد سے پورا واقعہ یا مکمل منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔تلمیح کے اولین نقوش حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کے دور سے ہی ملتے ہیں گویا تلمیح کے استعمال کا یہ فن انسان کو ازل سے ہی ودیعت کر دیا گیا تھا جو تا حال نئی معنویت کے ساتھ دنیائے علم و ادب میں جلوہ افروز ہے۔زیر نظر کتاب کا تیسرا باب “شبیر ناقد کا جہان تلمیحات” ہے. اس میں شبیر ناقد کے 21 شعری مجموعوں سے منتخب مذہبی ، تاریخی، مکانی و جغرافیائی ،لوک داستانوی اور ادبی تلمیحات کو تفصیلاً پیش کیا گیا ہے۔

بقول ڈاکٹر سید قاسم جلال:
صائمہ ممتاز چونکہ ایک محنتی، وسیع المطالعہ اور زیرک سکالر ہیں ۔ اس لیے انہوں نے جہاں اپنے موضوع سے متعلق قارئین کو کئی اور مفید معلومات فراہم کی ہیں وہاں اسلوبی لحاظ سے زبان و بیان کا معیار و وقار بھی قائم رکھا ہے”.

بقول ڈاکٹر شکیل پتافی
صائمہ ممتاز کا یہ کام تحقیق و تدقیق کا نادر نمونہ ہے ۔ جسے تنقیدی رجحانات کے تناظر میں رکھ کر حیران کن نتائج برآمد کیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب اردو ادب کے طالب علموں کے لیے فنی مباحث کا نیا باب کھول دیتی ہے” ۔شخصی تلمیحات کے باب میں مصنفہ نے شبیر ناقد کی شاعری میں جن ادبی شخصیات کو بیان کیا ہے ان میں میر، غالب، یاس یگانہ چنگیزی، علامہ اقبال، ن۔م راشد، فیض احمد فیض اور احمد فراز جیسے عظیم شعرا قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ لوک داستانوی تلمیحات میں چشم نرگس، سسی پنوں، شیریں فرہاد ، عزرا وامق ، عنقا ، لیلی مجنوں اور ہیر رانجھا کی تلمیحات کو شامل کیا گیا ہے۔زیر نظر کتاب میں مکانی و جغرافیائی تلمیحات میں جنت، پرستان ، حرم و دیر، قلزم، کوہ طور ، کنعاں، کلرکہار ، مدینہ اور نیل کی تلمیحات کا بغور جائزہ لیا ہے۔

مذہبی تلمیحات کا ذکر اگر کیا جائے تو اس میں آدم و حوا ، آل عبا، ابنِ آدم، اسم اعظم، لن ترانی، طوفان نوح، خیبر شکن، لا تقنطو اور ہابیل کی تلمیحات پیش کی گئی ہیں۔تاریخی تلمیحات میں وہ تلمیحات شامل ہوتی ہیں جو تاریخ سے اخذ ہوں ۔ جو اصلیت پر مبنی ہوں ،وہ نہ فرضی ہوں اور نہ من گھڑت ۔ تاریخی تلمیحات کے ساتھ جو واقعات منسوب کیے جاتے ہیں وہ فرضی افسانہ کی بجائے حقیقت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سقراط ،جمشید ،ابن قاسم، سکندر، قائدا اعظم، دارا اور محمود کی تلمیحات شامل ہیں۔زیر نظر کتاب مصنفہ کی ژرف نگاہی کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ اس کتاب میں ایک ایک تلمیح سے جڑے واقعات کو بہت عمدگی کے ساتھ مع حوالہ جات پیش کیا گیا ہے۔ اور قارئین کی سہولت اور علم کے لیے قرآن و احادیث صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے بھی پیش کیے گئے ہیں۔ جو ان کے تحقیقی شوق کا اعلی ثبوت پیش کرتی ہے۔شبیر ناقد نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ہمت ، جرات و بہادری کے کارناموں کی طرف جس شعر میں اشارہ کیا ہے وہ شعر ملاحظہ فرمائیے۔
وہ اہل حرم دیر بھی ہے جس کا مدح خواں
انداز سے حیدر کی بسالت بھی عیاں ہے

ایک اور جگہ شبیر ناقد نے دارا اور سکندر کی تلمیح کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔
وقت کی قدر کرنا جنہیں آگیا
ہستیاں ہیں وہ دارا سکندر بنیں

ایک اور شاعر نے اپنے شعر میں دارا و سکندر کو بطور علامت برتا ہے۔
غم بھی مجھے ملے ہیں جاگیر کی طرح
میں اپنی جاگیر میں رہتا ہوں نوابوں کی طرح

شبیر ناقد نے سقراط کی علم و حکمت اور دانشمندی کا ذکر مذکورہ شعر میں یوں کیا ہے۔
اتھاں زہر دے میکو پیالے ملین
میں بن بن کے سقراط جینداواں

اس شعر میں عہد حاضر کے حالات کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے یہاں سچ بولنے والے کو زہر کا پیالہ پلا کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا ہے اور یہی تلخ حقیقت ہےاگر فردوس کی تلمیح کو پڑھا جائے تو اس میں شبیر ناقد نے آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کی طرف یوں اشارہ کیا ہے اور کرب کے عالم میں یہ شعر کہا ہے۔
بنائی تھی فردوس گر میری خاطر
تو پھر کیوں گیا مجھ کو ناقد نکالا

کہیں زندگی اور مشکل حالات کے پیش نظر شبیر ناقد نے دوزخ کو بطور علامت بھی استعمال کیا ہے اسی تناظر میں شبیر ناقد کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے ۔
میرا زندہ رہنا گراں ہو گیا ہے کہ اب مثل دوزخ جہاں ہو گیا ہے

مصنفہ کے بارے میں پروفیسر شفیق الرحمن الہ آبادی اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔صائمہ ممتاز ایک ہونہار اور کل وقتی ادیبہ ہیں. مجھے امید ہے کہ زیر نظر کتاب ان کے آ ئندہ آنے والی تحقیقی و تنقیدی کتب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی”۔ میں زیر نظر کتاب کی اشاعت پر اور ایوارڈ حاصل کرنے پر مصنفہ کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ یہ کتاب اہل علم و ادب کے لیے معلومات کا بھرپور خزینہ ہے۔ یقینا ان کی کتاب دنیائے علم و ادب میں امر ثابت ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں