52

کم عمری میں شادی کا رحجان

نقطہ نظر/سیدہ فائزہ گیلانی
حکومت آزاد کشمیر کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے قانون سازی نہ کر سکی،کشمیر کے صرف ضلع نیلم میں 24فیصد بچیوں کی شادی ان کی اٹھارویں سالگرہ سے قبل کر دی جاتی ہے جبکہ میکس کے ڈیٹا کے مطابق 31 فیصد لڑکیوں کی شادی صرف غربت کے باعث کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔آزاد کشمیر میں کم عمری کی شادیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ قانون کا موجود نہ ہونا ہے۔ یونیسف کے تعاون سے2021-2020کے دوران کیے جانے والے ملٹی انڈیکیٹر کلسٹر سروے (میکس) کے مطابق ضلعی درجہ بندی کے حساب سے وادی نیلم کے بعد ضلع حویلی میں 16 فیصد بچیوں کی18 سال سے کم عمر میں، جبکہ مظفرآباد میں 15فیصد،جہلم ویلی میں 14فیصد، کوٹلی میں 10،باغ میں 9،سدنوتی میں 8،پونچھ میں 7،میرپور 7 جبکہ بھمبھر میں 5 فیصد بچیوں کی شادی 18ویں سالگرہ سے قبل کر دی جاتی ہے۔

ضلع نیلم سے تعلق رکھنے والی آمنہ کی شادی 15 سال کی عمر میں ہوئی ۔آمنہ کے اب دو بچے ہیں مگر ان کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے ۔آمنہ کے شوہر کی جانب سے گزشتہ تین سال کے دوران متعد بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ ماہ جب آمنہ کو ان کے جانب سے مارا پیٹا گیا تو انہوں نے پولیس اسٹیشن جا کر درخواست دی مگر ان کی درخواست پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں ہوا ۔آمنہ کو گزشتہ ہفتے پھر شوہر نے بری طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد وہ دوبارہ مقامی پولیس اسٹیشن گئیں مگر ان کی بات پر پولیس نے کسی قسم کی کاروائی نہیں کی۔ اب وہ اپنے دو بچوں کے ہمراہ والدین کے گھر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی شادی 15برس کی عمر میں اس لیے ہوئی کہ ان کے والد محنت مزدوری کرتے تھے جن کے لیے گھر کا نظام چلانا مشکل ہوتا جا رہا تھا اس لیے انہوں نے آمنہ کی شادی کو مناسب سمجھا۔آمنہ کے پانچ بہن بھائی ہیں اور وہ گھر میں سب سے بڑی تھیں۔ان کی والدہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ حالات سے تنگ آکر مجبوراً بیٹی کی شادی تو کی مگر اب اس کے اوپر ہونے والے ظلم کو برداشت کرنا بس کی بات نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلے جب اسے مارا پیٹا جاتا تھا تو ہم برداشت کرتے تھے۔ مگر اب جس طرح میری بیٹی کو مارا گیا مجھے ڈار ہے کہ وہ کہیں اسے جان سے ہی نہ مار دیں ۔وہ کہتی ہیں کہ ہم بہت بار پولیس کے پاس گے مگر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی الٹ یہ کہا جاتا ہے کہ جرگہ کر کے صلح کر لو تاہم اب ہم اپنی بیٹی کو واپس نہیں بھیجنا چاہتے۔اس حوالے سے جب پولیس کا مواقف لینے کے لیے ایس پی نیلم خواجہ صدیق سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں میٹنگ میں ہوں اور اس کے بعد بار بار کال کے باوجود کوئی جواب ہی نہیں دیا گیا۔وادی نیلم میں کم عمری کی شادی کی کیا وجوہات ہیں؟ اس حوالے سے پیس اینڈ کنفلکٹ سکالرحفصہ مسعودی کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ لائن آف کنٹرول کی وجہ سے کشدیگی کا شکار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے یہاں غربت اورتعلیم کی شرح کشمیر کے دوسرے اضلاح سے نسبتاً کم ہے۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی وجہ سے والدین کے لیے بچوں کو سکول بھیجنا ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ حالات ایسے تھے کہ کوئی پتہ نہیں تھا کب کس جگہ سے فائرنگ شروع ہو جائے ۔

حفصہ مسعودی کا یہ بھی کنہا ہے کہ وادی نیلم میں آج کل بچے بچیاں خود بھی چودہ پندرہ سال کی عمر میں شادی کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ 2003 کے بعد ایک دم میڈیا اور خاص کر اسٹار پلس کا رحجان ہے نئی نسل اس سے کافی متاثر ہے۔والدین کا پڑھا لکھا نہ ہونا بھی ایک اہم مسلہ ہے۔ اگر والدین پڑھے لکھے ہوتے تو وہ بچوں کوکیریئراورینٹڈ بنانے کے کی کوشش کرتے ۔ لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت کشدیگی کے باعث ایک پوری نسل تعلیم حاصل نہیں سکی یہی وجہ ہے کہ اب اسطرح کہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ حفصہ کا کہناہے کہ بچوں کی ابتدائی تربیت اور ذہن سازی(Early child Development) کا ہمارے معاشرے میں کوئی تصور ہی نہیں۔حغصہ کا کہنا ہے کہ بچوں کی تربیت اور مناسب مثبت ذہن سازی نہ ہونے کہ باعث مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں اگر وادی نیلم میں تعلیم کا نظام بہتر بنائے جانے کے ساتھ ساتھ بچوں اور والدین کی کم عمری کی شادی کے منفی اثرات کے حوالے سے مکمل ذہن سازی کی جائے اور سکولز کالجز کی سطح پر تربیتی سیشن دے جائیں تو اس کی روکا تھام میں مدد مل سکتی ہے۔

نیلم میں کم عمری کی شادی کی وجوہات کے بارے چئرمین کشمیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ (کے آئی آئی آر) الطاف حسین وانی کا کہنا ہے اگر چہ نیلم لائن آف کنٹرول کا قریبی علاقہ ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انڈین فائرنگ کے نتجے میں متاثر ہوا، تاہم اس علاقے میں کم عمری کی شادیوں کی بڑی وجہ پرانے رسم و رواج اور تعلیم کی کمی ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نیلم سمیت لائن آف کنٹرول کے دیگر پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے اقدامات اٹھائے۔وزیر وومن ڈویلپمنٹ آزاد کشمیر تقدیس گیلانی کا کہنا ہے کم عمری کی شادی قانونی شادی نہیں۔ جس پر کام ہونا چاہیے اور آزاد کشمیر حکومت کی کوشش ہے کہ یہ بل پاس ہو سکے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بھی یہ بل اسمبلی میں لانے کی بات ہوتی ہے تو اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتیں ہیں ۔کم عمری کی شادی کے باعث ہمارے بچیاں تعلیم بھی حاصل نہیں کر پاتیں جبکہ شادی کے بعد بھی ان کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے اور کم عمری کی شادی جیسے مسائل کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں