68

تزکیہ نفس کی تعریف قرآن کی آیات کی روشنی میں

تحریر:علامہ محمد عبد الرحمن نسیمی ایم فل سکالر
قرآن کریم نے تزکیہ نفس کے لیے متعدد مقامات پر رہنمائی فرمائی ہے اور بتلا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا تزکیہ کرتا ہے۔
تزکیہ کی تعریف
تزکیہ کا لغوی معنی ہے تصفیہ ،صفائی، پاکی۔تزکیہ، پاک کرنا نفس کو عیبوں سے ۔
قد افلح من تزکّی علامہ زمخشری کے نزدیکالتزکیۃ الانماء والاعلاء والتدسیۃ النقص والاخفاء تزکیہ نفس سے مراد باطن کی صفائی ہے. جس کی حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے سورۃ شمس میں آٹھ قسمیں کھائی گئیں۔ فرمایا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا وہ دونوں جہانوں میں کامیاب اور کامران ہوا اور جس نے اسے گناہوں کی خاک میں دبا دیا ۔وہ خائب اور خاسر ہوا جو شخص اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرتا ہے اور رکھتا ہے اور اپنے آپ کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرتا ہے اس کی فطرت سلیمہ نشوونما پاتی ہے۔ اس کی قوت و توانائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ایسا شخص اپنے اندر ایسا عزم اور ہمت محسوس کرتا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل کام کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو وقعت نہیں دیتا۔ نہایت ثابت قدمی سے نیکی کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔اس کی زندگی کا دامن اعمال حسنہ اور روشن کارناموں سے لبریز ہو جاتا ہے ۔ اس کی روحانی قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور آخر کار وہ اس منزل پر فائز ہو جاتا ہے جس کے بارے میں حدیث قدسی میں فرمایا ہے ۔
”اکون بصره الذی یبصربه“
میرا نور اس کی بینائی بن جاتا ہے اور وہ مجھ سے دیکھتا ہے۔
پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں۔’’جس کو خلفائے راشدین کی سیرت سے تلاش کیا جاتا ہے کہ مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر خداوند کی سر زمین پر نظر تزکیہ نفس کا وہ مرتبہ ہے“۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مقاصد نبوی/ بعثت نبوی کو بیان فرمایا گیا ان میں سے ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:”هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ“
ترجمہ: وہی ہے جس نے انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیۃ پڑھتے ہیں اور ان کا تذکیہ نفس کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کا علم دیتے ہیں اور بے شک وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔اِس آیت مبارکہ میں تزکیہ نفس کو مقاصد شرعیہ اور نبویہ قراردیا گیا کہ نبی مکرم محمد عربیﷺ کو مبعوث فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ انہیں باطل عقیدوں ، مذموم اخلاق اور دور جہالت کی خباثتوں اور قبیح اعمال سے پاک کرتے ہیں۔اس طرح جس طرح سیدنا عمر ؓ کو پاک کیا کہ قرآن کے ذریعے ان کا تزکیہ فرمایا اور وہ ہادی اُمم اور عادل بے بدل بن گئے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ صادق الامم بن گئے۔ عثمان غنیؓ حیاء کے پیکر بن گئے ۔سید علیؓ پیکر روحانیت و تطہیر کے مخزن بن گئے اور پوری دنیا سے ان خلفاء کے روحانی مشن کے دریا جاری ہو گئے ۔” و یزکیھم’’ کی تفسیر میں علامہ شیخ عبدالحق حقانیؒ دہلوی متوفی (۱۳۳۵)ھ لکھتے ہیں۔

”کہ رسول کریم ﷺکو کیوں بھیجا کہ اللہ پاک کی آیتیں پڑھ کر سناوے ۔‘‘و یزکیھم’’ اور ان کو اخلاق بد کی نجاستوں سے پاک کر دے اور اپنی روحانی روشنی سے ان کے نفوس کو منور کر دے۔ کوئی کیسا ہی پر زور واعظ ہو ہزاروں وعظ اور پند کرے جب تک اس میں روحانی کشش اور باطنی جازبہ نہیں کچھ بھی اثر پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو جلد زائل ہو جاتا ہے اور وہ کیا نقش تھا جو عرب کے سخت دل ،شہوت پرست مغرور جاہلوں کے دلوں پر قائم کر دیا گیا تھا کہ جو صدیوں تک نہ مٹا اور ان کی دنیاوی او ردینی ترقی کا رہنما بنا دیا ۔ نبی علیہ السلام نے ایسا تزکیہ فرمایا کہ پتھر دل کو موم بنا دیا ۔ اس کو رسالت کبریٰ کہتے ہیں“۔

علامہ محمود آلوسی بغدادی لکھتے ہیں:
’’و یزکیھم‘‘کی تفسیر میں فرماتے میں کہ نبی کریمﷺ کی نگاہ کرم سے وہ تزکیہ فرمایا کہ قلبی فیضان کی طرف اشارہ فرمایا دیا جو نبوت کی نگاہ فیض اثر اور توجہ باطنی سے صحابہ کرام کو نصیب ہوا۔ اس کے بعد اولیاء کرام اپنے مریدین پر اسی سنت نبوی کے مطابق انوار کا القاء کرتے ہیں۔ یہاں تک ان کے دل اور ان کے نفوس پاک او رطاہر بن جاتے ہیں۔
علامہ مذکور فیضان نگاہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں .’’ووقع ھذا لا انکر برکة کل من ال مریدین التوجہ و لرابطہ و قد شاھدت ذالک من فضل اللہ عزو جل .مرشد کامل کی توجہ اور تعلق خاطر کی برکت کا انکار نہیں کرتا اللہ تعالی کے فضل سے میں نے خود مشاہدہ کیا ہے
قرآن کریم نے تزکیہ نفس کو تقویٰ کا سبب قرار دیا ہے۔تقویٰ کا تعلق بھی دل کے ساتھ ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے پرہیز گاری ، نیکی اور پرہیز گاری کا مطلب فقر باطن کے ساتھ ہے جس کو تزکیہ نفس کہتے ہیں ۔()
تقویٰ دل کی کیفیت کا نام ہے۔ تقویٰ اولیاء اللہ کی پہچان ہے۔

’’الَّذین اٰمنُو و کَانو یَتّقُون‘‘
صاحب تقویٰ کا مرتبہ خدا کی بارگاہ میں سب سے بلند ہے۔ فرمایا
’’ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰكُمْ‘‘
ترجمہ: بے شک اللہ کے ہاں سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار(یعنی تزکیہ نفس ) ہے ۔پرہیزگار اللہ کے دوست ہیں اور خدا ان کا دوست ہے ۔
’’وَاللہ وَلیّ المُتَّقین۔‘‘
’’فان اللہ یُحبّ المتّقین۔‘‘
پرہیز گاری سفر آخرت کے لیے بہترین زاد راہ ہے۔ فرمایا :
”فان خیر الزّاد التّقوی‘‘
ترجمہ: پرہیز گاری کا لباس سب سے بہترین ہے ۔
’’و لِباس التّقویٰ ذٰ لک خیرہ‘‘
قرآن کریم کے نفس کے تین مراتب بیان کیے ہیں ۔بنیادی طور پر یہی اقسام ہیں۔
1۔نفس مطمئنہ
جو اللہ کی یاد سے معمور رہتا ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ یٰآیھا النّفس المطمئنّۃ اے نفس مطمئنہ .
نفس مطمئنہ کسے کہتے ہیں۔ علامہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں .”جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون اور قرار حاصل ہوتا ہے اسی طرح جس شخص کو اللہ کی یاد میں سکون و اطمینان نصیب ہو اسے نفس مطمئنہ کہیں گے۔ مزید لکھتے ہیں کہ اس اطمینان کا اس وقت تک تصور نہیں کیا جاسکتا جب تک انسان کے اندر سے عادات رزیلہ دور نہ ہو جائیں اور یہ اس وقت تک دور نہیں ہوتی جب تک انسان اللہ پاک کی صفات حمید کی تجلیات سے بہرہ ور نہ ہو اور تزکیہ تب نصیب نہیں ہوتا اور آدمی اس صفات میں فنا ہو جائے اور ان کے ساتھ اس کو بقا نصیب ہو اسی وقت انسان کو ایمان حقیقی نصیب ہوتا ہے اور ایمان کی دولت آرزانی ہوتی ہے“۔

علامہ سید اسماعیل حقی( متوفی ۱۱۳۷ھ تفسیر روالبیان)پ ۳۰ سورۃ الفجر آیت ۲۷ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
” گھبراہٹ اور اضطراب کے بعد جو سکون ملتا ہے اسے اطمینان کہتے ہیں اور نفس کو سکون تب میسر آتا ہے جب وہ یقین، مغفرت اور شھود اعلیٰ کی منزل پر فائز ہو جائے اور مقام ذکر الہٰی کی کثرت اور دوام سے حاصل ہوتا ہے۔
علامہ سید شریف جرجانی نے نفس مطمئنہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ۔

’’ لنفس المطمئنہ ھی التی تنورت بنور القلب حتی تخلت عن صفاتھا المذمومۃ وتحلت بالاخلاق الحمیدۃ ‘‘یعنی نفس مطمئنہ وہ ہے جو نور قلب سے منور ہوتا ہے یہاں تک کہ مذموم صفات فنا ہو جاتی ہیں اور وہ اخلاق حمیدہ سے مزین اور آراستہ ہو جاتا ہے۔
مذکورہ بالا تفاسیر کی روشنی میں خلاصہ یہ ملتا ہے کہ تزکیہ نفس سے ہی نفس مطمئنہ اطمینان کے مقام تک پہنچتا ہے جو خلفائے راشدین کے طریق اور مراتب تزکیہ کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی کو میر سید عبدالواحد بلگرامی (متوفی ۱۰۱۷ ھ) نے تصوف پر لکھی گئی کتاب سبع سنابل میں تحریر فرمایا ہے۔

2۔نفس امّارہ
قرآن کریم نے پارہ ۱۳ کے آغاز میں (سورۃ یوسف آیت )کے متعلق ارشاد فرمایا:
”ان النفس الامارۃ بالسّوءِ“ اس کا مطلب ہے کہ سرکش نفس جو گناہوں پر اُبھارتا ہے جو اس کی عادت ہے کہ یہ گناہ کے خار زاروں میں انسان کو اس بے رحمی سے گھسیٹتا ہے قباء شرافت تار تار ہو جاتی ہے۔ اس سرکش کی شر انگیزیوں سے وہی بچ سکتا ہے جس پر میرا رب کرم کرتا ہے جس طرح حضرت یوسفؑ نے فرمایا کہ سب سن لو کہ یہ میرا کمال نہیں بلکہ میرے رب کا کرم ہے ۔ بے شک اس کا دامن مغفرت بڑا وسیع ہے۔

3۔نفس الوّامہ
یعنی ٹوکنے والا ،جو اندر سے انسان کو ٹوکنے والا یا ملامت کرنے والا ہے۔
’’ولا اُقسم بِالنّفس الَّوَّامَہ‘‘اورمیں قسم کھاتا ہوں نفس لوّامہ کی (حشر ضرور ہو گا )
ترتیب کے اعتبار سے یہ دوسری قسم ہے۔ نفس لوّامہ کی قسم کھائی جا رہی ہے۔
حضرت حسن بصری ؒ کے نزدیک نفس لوّامہ مومن کا نفس ہے جو بروقت اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں پر اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہے۔صوفیاء کرام کا ارشاد ہے ۔نفس سرکش کو نفس امّارہ کہتے ہیں جو امر کا مبالغہ ہے کیونکہ وہ ہر وقت بُرے کاموں کا حکم کرتا رہتا ہے لیکن جب اللہ کی یاد میں کوشاں ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ خصوصی توجہ اور جذب سے اس کے اپنے عیوب اور نقائص منکشف ہو جاتے ہیں۔ اس پر وہ پشیماں ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو بُرا بھلا کہتا رہتا ہے۔ اس کو نفس لوّامہ کہتے ہیں ور جب وہ ہر ماسواللہ سے قطع تعلق کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہو جاتا ہے تو اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے اس کو نفس مطمئن/ مطمئنہ کہتے ہیں۔

قرآن کریم کی روشنی میں تزکیہ کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے بلکہ نزول قرآن کا مقصد اور صاحب قرآن کے بعثت کا مقصد یہی تزکیہ نفس ہے۔ خلفائے راشدین وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے براہ راست نبی علیہ السلام سے قرآن سیکھا اور تزکیہ نفس کیا اور قرآن کو اپنے سامنے نازل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں