40

شاملات کے لئے قانون سازی اور زرعی اصلاحات کی ضرورت

دھندلا سچ ،چوہدری محمد رفیق
وزیراعظم آزاد کشمیر کے حلقہ انتخاب بلکہ آبائی یونین کونسل سوکاسن میں چند روز قبل شاملات پر قبضے کے ایک دیرینہ تنازعہ میں پولیس انتظامیہ کی موجودگی میں فائرنگ کے نتیجے میں نو افراد شدید زخمی ہوئے جن کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بھمبر اور پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں علاج معالجہ جاری ہے حسب روایت پولیس نے مقدمات درج کر لئے ہیں اور عوام کو تسلی تشفی دینے کے لئے یا بالفاظ دیگر حسب روایت تفتیش شروع کردی گئی ہے شاملات سے متعلق چھینا جھپٹی قبضے اور تنازعات میرپور ڈویژن بالخصوص ضلع بھمبر میں آئے روز کا معمول ہے حال ہی میں کچھ عرصہ قبل یونین کونسل کڈھالہ میں شاملات پر قبضے کی ایک کوشش میں سہیل نامی والدین کا اکلوتا ایک نوجوان بےدردی سے قتل کر دیا گیا ضلع بھمبر میں 80 فیصد سے زائد مقدمات لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ نزاع شاملات کی چھینا جھپٹی ہی ہے طاقتور گروپ قبضہ مافیا حکومت اور انتظامیہ کی چھتری میں شاملات پر ناجائز قبضے خرید وفروخت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں شاملات کی تقسیم کا کوئی موثر قانون نہ ہونے کے باعث عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے عوام کی جانب سے اکثر و بیشتر شاملات بارے قانون سازی کئے جانے کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں.

راقم الحروف بھی اس پر متعدد بار آرٹیکلز تحریر کر چکا ہے مگر ہمارے قانون ساز اسمبلی کے ممبران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی شاید وہ دانستہ اس معاملے سے پہلو تہی اختیار کئے ہوئے ہیں یہ بد قسمت ریاست جموں کشمیر جب معاہدہ امرتسر کے ذریعے ڈوگرہ گلاب سنگھ کی عملداری میں دے دی گئی اور 1858ء مہاراجہ گلاب سنگھ کی وفات کے بعد ان کا بیٹا رنبیر سنگھ تخت نشین ہوا جس نے 1862ء میں ریاست کی تمام زمین سرکاری تحویل میں لے لی یوں تمام جاگیریں ملکیتیں منسوخ کر دی گئیں اس کے بعد ریاست میں ملکیت کا کوئی واضح قانون وضع نہیں کیا گیا مہاراجہ گلاب سنگھ نے چونکہ یہ ریاست انگریزوں سے خرید کی تھی لہٰذا اس کا جانشین اس کو اپنی تحویل میں لینے میں حق بجانب تھا شخصی حکومتوں میں حکمران کے احکامات ہی قانون ہوا کرتے ہیں مہاراجہ رنبیر سنگھ نے اس کے بعد وفاداری بشرط استواری کے اصول کے تحت ریاست اور حکومت کے وفاداروں کو جاگیریں ملکیتیں نمبردار ذیلدار جیسے مناصب و مراتب عطاء کئے تب سے ریاست میں 1947ء کی تقسیم ریاست کے باوجود ملکیت حاصل کرنے یا شاملات بارے کوئی واضح قانون موجود نہیں گو کہ 1975ء کی اسمبلی میں اس سلسلے میں کچھ قانون سازی کی کوشش ضرور کی گئی مگر شاملات کی تقسیم یا ملکیت کا کوئی واضح قانون موجود نہیں ہے.

جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے تحت آج کے شعور و آگہی کے دور میں بھی عمل درآمد جاری ہے بااثر قبضہ مافیاز متحرک ہیں لڑائی جھگڑے تنازعات جاری ہیں عوام عشروں برسوں تک ان مقدمات کی پیروی میں الجھے رہتے ہیں مگر نتیجہ ندارد ۔ سوئے اتفاق وزیراعظم آزاد کشمیر کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے اور وہ خود بھی ایسے تنازعات میں ملوث یا متاثرین میں سے ہیں اس معاملے کی نزاکت کلیات و جزئیات سے خوب واقف ہیں بلکہ اکثر نجی محافل میں بقول خود ان کے اپنے کہ وہ ان معاملات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں ویسے بھی بحیثیت منتظم اعلی ریاست ان کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ اپنی اولین فرصت میں اس بابت قانون سازی کریں جس سے وہ نہ صرف خود ذاتی حیثیت میں مستفید ہوں بلکہ عوام کی بھی بھلائی و بہتری ہو لڑائی جھگڑوں تنازعات دشمنی بدامنی کا خاتمہ ہو اور لوگوں کو ان کا جائز حق ملے گو کہ یہ قانون تو پہلے سے موجود ہے کہ موضع میں موجود ملکیت کے تناسب کے مطابق ہر مالک دھ کو شاملات کے حصول کا حق حاصل ہے بس کامل و ناقص شاملات کی تقسیم اور ملکیت رقبہ کے تناسب کے لحاظ سے عمل درآمد کے لئے قانون سازی کئے جانے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے آج کل آزاد کشمیر میں بھی پنجاب کی طرز پر زمینوں یعنی محکمہ مال کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے اگر جناب وزیراعظم اس انتہائی اہمیت کے حامل عوامی ایشو پر فوری خصوصی توجہ دیتے ہوئے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تو یہ ان کا عوام کو لڑائی جھگڑوں سے نجات دلانے اور کمزور طبقات کو ان کا جائز حق دلانے کا سنہرا کارنامہ ہو گا.

زراعت جو اس خطے کا صدیوں سے پیشہ اور ذریعہ روزگار رہا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے قوانین جدید ضروریات و تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں جس کے باعث یہ شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے یہاں ضرورت کے مطابق زرعی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ہندوستان میں وزیراعظم پنڈت نہرو نے آئین سازی کے بعد پہلی توجہ زرعی اصلاحات کی طرف کی اور غیر آباد بنجر پڑی سرکاری زمینوں کو بے زمین ہاریوں کسانوں میں تین سال کے لئے ان کو زیر کاشت لانے کی شرط پر تقسیم کیا انہیں زرعی آلات مشینری بیج ادویات کھادوں کے حصول کے لیے سبسڈی دی آباد کاری کے لئے نہایت آسان شرائط پر قرضے دیئے زراعت کے لئے آج بھی ہندوستان میں مفت بجلی کی سہولت موجود ہے ہر چار سال بعد جس طرح ہمارے ہاں پٹواری صاحبان چار سالہ تحریر کرتے ہیں اور مثلحقیقت اور گردآوری کے نئے رجسٹر تیار کرتے ہیں وہاں اس کے ساتھ ساتھ خانگی تقسیم یا خرید وفروخت کی بابت منقسم زمین کو یکجا کرنے کی کارروائی بھی کرتے ہیں تاکہ ہر زمیندار، کسان کی جتنی بھی زمین ہے وہ اکٹھی ہو اور وہ آسانی سے اس کے لیے آبپاشی کا انتظام کرتے ہوئے اس کو بہتر انداز میں کاشت کر کے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کر سکے ہمارے ہاں محکمہ زراعت میں انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ باصلاحیت لوگ موجود ہیں حکومت کو ان کی مشاورت آراء و تجاویز سے زرعی اصلاحات نافذ کرنی چاہئیں جس سے نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافہ ہو لوگوں کو روزگار ملے ایگرو بیسڈ انڈسٹری کو فروغ حاصل ہو آئے روز کے جھگڑوں اور بدامنی کا خاتمہ ہو ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں