34

سرکاری ادارے دائرہ عمل اور احتیارات

از قلم: قدسیہ عزیز اسسٹنٹ پروفیسر
پاکستان میں تعلیم کے لیے دی. جانے والی سہولیات میں اداروں کی عمارت اورانکا وسیع پھیلاؤ قابل ذکر ہے ابتدائی تعلیم کسی بھی ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے پاکستان کے ائین میں اس کی باقاعدہ 25 A موجود ہیں چونکہ ہمارے نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہیں لہذا قومی پالیسی سازی میں ان کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کسی بھی قوم کا. سرمایہ نوجوان ہی ہوا کرتے ہیں معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اسی صورت ممکن ہو سکتی ہے اگر بہترین تعلیم و تربیت کی سہولیات نوجوانوں کو دی جائیں سو ہمارے قومی اداروں میں سرکاری کالجز کی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں بہتر ہے فیس نہ ہونے کے برابر ہیں تعلیم کا معیار نسبتا زیادہ بہتر اور پراثر ے اس کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی طلباء کا کردار قابل تحسین ہے.

جس میں ہر بڑے تعلیمی ادارے نے خاطرخواہ انتظامات کا اہتمام کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان پروگرام کو منعقد کروانے میں بھی خاص دلچسپی لی ہمارے باغ کے تین بڑے کالج جن میں گرلززپوسٹ پوسٹ گریجویٹ کالج با ایجوکیشن کالج اف ایجوکیشن باغ اور بوائز پوسٹ گریجوئیٹ کالج قابل ذکر ہیں کالجز کے اندر ایکڈیمک ڈسپلن ہوتا ہے اور ان اداروں کے اندر امیر و غریب سفید پوش غرض ہر طبقہ حیات کے لوگوں کے بچے زیر تعلیم ہیں اب ان اداروں کی عمارات ان کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی ان کے اندر پڑھنے والے سینکڑوں طلباء اپنے کلاس رومز کی کمی لیبارٹیز کے اندر سامان کی کمی اور دوسرے مسائل کا اکثر شکار نظر اتے ہیں عموما جو طلبہ مالی طور پہ تھوڑے بہتر ہوتے ہیں وہی ن اداروں کا رخ نہیں کرتے سو ایک طبقاتی نظام تعلیم ایک طبقے کو بہترین ایک طبقے کو بیسویں صدی میں بھی تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو پورا نہیں کر پاتا .

جب ان میں تو مقابلے کے امتحان میں ایک طرف بہترین اداروں اور تمام تر سہولیات ضروریات سے محروم طبقہ ایک دوسرے کے امنے سامنے ہوتا ہے تو جیت کس کا مقدر رہتی ہے یہ ہم سب جانتے ہیں گزشتہ کا ایک سال سے تقریبا ان اداروں کے اندر ایک عمارت لوکل گورنمنٹ نے تحت تیار کی جا رہی ہے وہ واش روم کے لیے اس کی منظوری دی گئی ابھی ادراوں خصوصا گرلز پوسٹ گریجویٹ کالج باغ عمارت اس ادارے میں پڑھنے والی طالبات کے لیے ناکافی ہے ادھی سے زیادہ عمارت یونیورسٹی کے زیر استعمال ہیں اور کالج کے اندر چار ڈسپلن چل رہے ہیں دضلع باغ کے سب سے بڑے ادارے کی حالت ناگفتہ بے ہے نہ ہی سٹاف روم نہ ہی میٹنگ روم اور نہ ہی ارمن بلاک موجود ہے پورے کالج کے اندر ابھی تک شعبہ اردو بی ایس کلاسز شیلٹرز میں کلاس لینے پہ مجبور ہیں اس کے ساتھ شعبہ انگریزی کے اور سمسٹر ہمارے ساتھ موجود ہیں اور سب کے سب شیلٹرز میں کلاسز لیتے ہیں اب لوکل گورنمنٹ کالج کو واش روم بنا کے دے رہی ہے.
جبکہ کالج کا موقف ہے کہ عمارت کے اندر واش روم پہلے سے ہی کافی تعداد میں موجود ہے ہماری ضرورت اس وقت ایڈمن بلاک سٹاف رومز لائبریری میٹنگز روم. امتحانی ہال افسز اور کیفٹیریا ہے جو زیادہ ضروری اور اہم ہیں مگر حکومت اور لوکل گورنمنٹ اس عمارت جو کہ واش روم کے لیے مخصوص ہیں ادارے کی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ اپنے منصوبے کے مطابق بنانے پہ مزید ہے یہ بالکل ایسے ہیں جیسے کسی شخص کو.٠پیٹ میں درد ہو اور ڈاکٹر سر درد کی دوا دےضرورت اس امر کی ہے کہ تو کم از کم اس ادارے کے. پرنسپل اور ان کے سٹاف سے مشاورت کر کے ان کی ضرورت کو مد نظر رکھ کے منصوبہ منظور کیا جائے کہ اتنے بڑے پیمانے پہ اس غریب ملک کا سرمایہ ضائع ہو اور ادارے کی ضرورت بھی پوری نہ ہو اس سے عمارت کے اوپر اٹھنے والے. اخراجات زیادہ اتے ہیں اور ادارے میں طالبات کی سہولت کے لیے انتظامات کیے جائیں تو شاید یہ کم وسائل میں بہتر نتائج ممکن ہو بہر کیف حکومت وقت اداروں پرنسپل صاحبان یا صاحبات کے درمیان مفاہمت باہمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ قومی مسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور ان کا درست استعمال کر کے انہیں اپنے اپنے فرائض کی مثبت ادائیگی کی جائے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں