30

پنجاب کا تھیٹر اور پنجاب آرٹس کونسل کے گماشتے

تحریر:ایڈووکیٹ رانا نعیم
پنجاب میں تھیٹرکی روایت بڑی قدیم ہے ہمارے ہاں اسے قدیم دیوی دیوتاؤں کی کہانیوں سے بھی جوڑا جاتا ہے اور کبھی کبھار یہ قیاس یقین کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یوں تو قیام پاکستان کے بعد تھیٹر نے کئی شکلیں بدلیں مگر جو شہرت امان اللہ سٹائل تھیٹر کو ملی اس کی نظیر سو سالہ تھیٹر کی تاریخ میں سرحد کے اس پار سے بھی نہیں ملتی۔ انگریز سرکار کے مذہبی اجتماعات اور نو آبادیاتی کارندوں کے خاندانوں کو محظوظ کرنے کے لیے 1876 میں ایک ڈرامہ ایکٹ جاری کیا گیا جو آج تک ذہنی طور پر غلام پاکستان میں رائج ہے۔ 47 ء کے بعد عقائد کی دوڑ میں فنون اور ثقافت کو جو تھپیڑے برداشت کرنے پڑے وہ از خود ہماری آزادی کی کہانی پر انگلی اٹھانے کے لیے کافی ہیں۔ معروف پانچ دریاؤں کی سرزمین اور سرسوتی کے ظہور کی سرزمین پر جبر ، فن کی حد بندی تو کر سکتا ہے مگر اسے معدوم نہیں ہونے دیتا۔ فلموں میں گنڈاسا کلچر کو لکھنے والے ضیا دور کے جبر کے خلاف ایک استعارہ خیال کرتے رہے۔ ٹھیک اسی وقت جو ظرافت کا قلعہ ننھا، منور ظریف، رنگیلا اور علی اعجاز کے بعد امان اللہ نے تعمیر کیا اس نے پنجاب میں تھیٹر کی تاریخ کو از سر نو مرتب کیا۔ حال ہی میں سرکاری سرپرستی میں ہونے والے تھیٹر نے کب پرائیویٹ تھیٹر کا روپ دھارا اس میں مشرف دور میں ہونے والی انتظامی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کنٹونمنٹ اور شہر کی باقی بستیوں میں تھیٹر کی حد بندی مختلف رہی جو کہ آج کل کے مروجہ قواعد و ضوابط کے خلاف ہے مگر بستیاں اور ان کی عمارتیں اپنے ساکن اور محل وقوع سے پہچانی جاتی ہیں۔ کچھ ہی روز قبل پنجاب بھر کے تھیٹر مالکان نے ادارہ پنجاب آرٹس کونسل کی طرف سے کیے گئے تجاوز پر عدالتِ عالیہ سے عبوری حکم لیا ہے جس کے مطابق کئی بار سکروٹنی کے مراحل سے گزرے تیس پینتیس سکرپٹ کی سکروٹنی فیس پندرہ ہزار کر دی گئی ہے اور یہ سارا عمل دراصل اس غیر قانونی طور پر کیے گئے اضافے کے خلاف تھا جو اضافہ غیر قانونی طور پر نگران حکومت نے کیا۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق نگران حکومت کسی صورت پالیسی فیصلے نہیں لے سکتی اور نہ ہی کوئی شہری عدالتِ عظمیٰ کے کیے گئے فیصلوں سے انحراف کر سکتا ہے مگر ادارہ پنجاب آرٹس کونسل نے نگران حکومت کی سہولت کاری کے ساتھ غیر قانونی بی او جی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں صوبائی اسمبلی کے ممبران کی موجودگی بی او جی کی تشکیل اور وجود کا لازمی جزو ہے۔

تاہم مادر پدر آزاد نوکر شاہی کو جو سہولتیں یا چھوٹ عمران خان کے دور حکومت میں ملی وہی سہولتیں اور چھوٹ نگران حکو مت کے دور میں غیر قانونی و غیر آئینی طور پر ایکسٹینڈ کی گئیں۔ پوچھنے والا کوئی نہ تھا اور پوچھتا بھی کیسے کہ جب بکاؤ ہاتھوں میں قلم تھما کر کرسی پر بٹھا دیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ادارہ پنجاب آرٹس کونسل کی موجودہ شکل اسی نگران حکومت کا تسلسل ہے جہاں عامر میرایک ایسے رتھ میں سوار رہا جہاں اس نے اپنے آبا کے نظریے کو بھی کچل ڈالا۔ دوسری طرف پنجاب آرٹس کونسل میں تعینات مشکوک فراڈیا گروہ تھا۔ پہلے پہل تو سٹی فیم صحافی کے بلونگڑے نے تعلقات کی بنیاد پر تھیٹر مالکان کے ساتھ ساز باز کر کے عامر میر کے غبارے میں ہوا بھری۔ اس کے بعد فیصل آباد سے ایک بدنام زمانہ زائد العمر افسر زاہد اقبال لاہور لایا گیا جس نے تھیٹر مالکان سے ہر طرح کے استفادے کو معیوب خیال نہیں کیا اور اس کام میں جعل ساز فراڈیے اور ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرنے والے بدنام زمانہ اسسٹنٹ عثمان علی نے اس کے فرنٹ مین کا کردار اداکیا ابھی کچھ ہی دنوں قبل سوشل میڈیا پر ایک تھیٹر کی بکنگ پر اسی عثمان علی نامی اسسٹنٹ کی ویڈیو گردش کر رہی تھی جس میں وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے دھڑلے سے ڈائریکٹر آپریشنز مغیث بن عزیز کے مہمانوں کےلیے چار مفت ٹکٹیں مانگ رہا تھا اور اس کا یہ اصرار تھا کہ سیٹ بھی مناسب اور اچھی لائن میں ہو۔

یہ کہانی پنجاب آرٹس کونسل میں تعینات شعبہ تھیٹر کے افسران کی روز مرہ کی کہانی ہے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ، محکمہ داخلہ کے ساتھ مل کر خواتین فنکاروں کو ہراساں کرنے کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ستمبراوراکتوبرکے ماہ میں بھی جاری و ساری رہا جس میں مشرف عہد میں رقص کے بڑھتے رجحان پر سامنے آنے والی فنکاراؤں کو بہت ہراساں کیا گیا۔ آئے روز شو کاز نوٹس اور اس کے جواب میں اپنے دفتر کے چکر لگوانا رنگ باز زاہد اقبال اور اس کی ٹیم نے معمول بنا لیا ہے۔ اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ عرصہ تین سال سے جاری جنگ میں محکمہ داخلہ نے خود کو پہلی بار آئین کے تابع کرنے پر اکتفا کیا اور سیکرٹری لاء کی مداخلت پر اپنی اجارہ داری کو خیر آباد کہا اور ایک آرڈیننس نگران حکومت کے دور میں منظور ہو کر سامنے آ چکا ہے جس کی یقینی طور پر قانونی اور آئینی حیثیت پر سوال قائم دائم ہے مگر ادارہ پنجاب آرٹس کونسل ایسے ہی افسران کو تھیٹر کی بھاگ دوڑ دے گا کہ جن کو ضلعی انتظامیہ نے تھیٹر مالکان کے ساتھ ساز باز کرنے پر رنگے ہاتھوں کئی بارپکڑا اور تو اور خواتین فنکاراؤں سے اپنے دئیے ہوئے اختیارات سے تجاوز کر کے نا مناسب رویہ رکھا۔

اس حوالے سے زاہد اقبال اور اس کے ڈی جی پی آر کے رفیق کی معروف سٹیج فنکارہ خوشبو کے ساتھ نا مناسب اور غیر اخلاقی رویے والی ویڈیو ریکارڈ کا حصہ ہے جو سرکاری پھنئیر آٹھ آٹھ واہیات گانوں کی سنسر ریہرسل منظور کرنے سے کبھی نہیں چوکا وہ اور اس کا گروہ کیوں کر تھیٹر مالکان کو سہولت نہیں دیتے ہوں گے۔ اس کی واضح مثال کچھ عرصہ سے عدالتِ عالیہ کے حکم سے قبل ہی بغیر سکرپٹ سکروٹنی تھیٹر مالکان کا تھیٹر چلانا ہے۔ اس حوالے سے فنکار ، گانے اور کاسٹریوم کی تبدیلی کا ایک ریٹ مقرر ہے ۔ دراصل کسی بھی سیاسی حکومت نے مشرف عہد کے بعد پنجاب کی ثقافت کی اس طرح سرپرستی نہیں کی جو کہ اس کا آئینی حق تھی الٹا قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کی گئی بھرتیاں اور پی پی ایس سی کے ذریعے پرچے آؤٹ کروا کر بھرتی ہونے والے امیدواروں نے نوکری ملنے پر بھی وہی گل کھلائے جو ان کی جبلت کا خاصہ تھا۔

دوسری طرف وفاق پنجاب کی ثقافت کے ساتھ عرصہ سے کھلواڑ کرتا آ رہا ہے کہ اس نے اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی وفاقی ملازمین کو پنجاب آرٹس کونسل جیسے ادارے کی سربراہی سونپی رکھی اور پھر گزشتہ دو سے تین سالوں کا وہ غیر آئینی اور غیر قانونی گند جس میں انگریزی بونوں نے سیاسی کاٹھوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے عدالتِ عظمیٰ کے نظائر اور آئین کی دھجیاں بکھیر دیں اور اداروں میں غیر قانونی بورڈز اور کمیٹیوں کے نوٹیفیکیشن کرنے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی و غیر آئینی فیصلوں کا اطلاق بھی کروایا۔ مریم نواز کی حکومت کے لیے بطور خاتون یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ سٹیج پر کام کرنے والی ان فنکاراؤں کے سماجی رتبے کو کیسے قابل تکریم بناتی ہیں تو دوسری طرف تھیٹر مافیا اور ان کی سدھائی گئی نام نہاد فنکاراؤں سے کیسے ایماندار اور فرض شناس افسر کا دامن تہی ہونے سے بچاتی ہیں اور کیا موجودہ حالات میں غیر قانونی پریکٹسز کی مرتکب پنجاب آرٹس کونسل اور اس کی افسر شاہی اس قابل ہے کہ ان کے ہر ایکشن کو سیاسی حکومت سپورٹ کرے؟

وہی پنجاب آرٹس کونسل جس کی افسر شاہی نے نگران حکومت کے دوران غیر قانونی طور پر سکرپٹ سکروٹنی فیس پندرہ ہزار سے پینتیس ہزار کر دی جب کہ دوسری طرف رنگ باز زاہد اقبال اور اس کی ٹیم اور اس کے ٹھرکی شہزادکی ڈیمانڈیں رو ز بروز بڑھتی جا رہی ہیں اور گانے، ڈریس اور آرٹسٹ تبدیلی کا ریٹ بھی فی زمانہ مہنگائی کے مطابق عید پر جلد مارکیٹ میں جاری کر دیا جائے گا۔ خدارا اختیارات دیتے ہوئے ان دو نمبر بھرتی افسران کا ماضی اور ان کی جبلت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے وگرنہ اس نظام سے بلال حیدر، زاہد اقبال اور عثمان علی جیسے گماشتے جنم لیتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں