47

بزنس فورم کا دورہ حویلی

تحریر:جاوید عارف عباسی وائس پریزیڈنٹ بزنس فورم
بزنس فورم آزاد کشمیر و گلگت بلتستان شریعت اسلامی کی روشنی میں آزاد کشمیر کے کاروباری حضرات کیلئے ایک پلیٹ فارم ہے جو بزنس سلز ڈیویلپمنٹ ، دنیا بھر میں پھیلے کشمیریوں کے درمیان نیٹ ورکنگ، بے روزگاری کے خاتمے اور انٹر پنیورشپ سکلز کے علاوہ آزادکشمیر کی معاشی ترقی سمیت قدرت کی طرف سے عطا کردہ وسائل کو ایکسپلور کرکے سود سے پاک معیشت پر مبنی ” خوشحال ریاست” کیلئے لئے قائم کیا گیا ہے۔ جس میں بلا تخصیص سیاسی و علاقائی وابستگی، حکومت ، کاروباری حضرات و تاجر، اورسیز کمیونٹی ، یونیورسٹیوں اور اداروں کے ایکڈیمیا، سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران ، سول سوسائٹی ، ملٹری و سول بیوروکریسی کیساتھ مشاورت، تجاویز ، تبادلہ خیال اور آزادکشمیر و گلگت بلتستان کے باشندگان اور ریاست کی معاشی ترقی کیلئے روڈ میپ کی تیاری شامل ہے۔ بزنس فورم کے بانی صدر عمران عزیز صاحب جو خود کئی نسلوں سے کاروبار سے منسلک ہیں اپنی آنکھوں میں معاشی ترقی کا خواب سجائے اس کیلئے سرگرداں ہیں ۔ امریکہ، مڈل ایسٹ ، یورپ، آسٹریلیا اور دنیا بھر کے دورے کر کے کاروباری مواقع کی تلاش، طریقہ کار اور اپنی ریاست اور قوم کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ بزنس فورم نے ترکی اور دوبئی میں بزنس ایکسپوز میں شرکت کی ، آزاد کشمیر میں پری بجٹ سیمینار کرکے حکومت کو کاروباری ترقی کیلئے تجاویز کی ریت بھی ڈالی اور اورسیز کشمیریوں کو اپنی ریاست میں انویسٹمنٹ اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے مائنڈ میکنگ اور نیٹ ورکنگ پر کام کیا۔ یہ سارا کام۔بلا معاوضہ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اپنے لوگوں اور ریاست کی ترقی کیلئے کیا جا رہا ہے۔ کچھ تجربات کے بعد بزنس فورم نے فیصلہ کیا کہ اب اس ادارے کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور ریاست میں موجود ہیومن ریسورس اور بزنس پوٹینشل پر کام کیا جائے
سردار عمران عزیز خان پونچھ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر بھی ہیں جو میرپور کے بعد دوسرا چیمبر ہے۔ چنانچہ بزنس فورم نے سول سوسائٹی ، سول و ملٹری بیوروکریسی ، کاروباری حضرات، یونیورسٹی اور کالجز کے شعبہ بزنس کے ہیڈز اور ریاست کی انٹیلجنشیا کیساتھ مشاورت کیساتھ ” پونچھ ڈویژن” میں انویسٹمنٹ کے مواقع ، پوٹینشل کی ایکسپلوریشن، کیلئے مختلف الخیال افراد کیساتھ رابطہ کاری کے سلسلے میں اپنا پہلا سہ روزہ دورہ ضلع حویلی، تحصیل عباسپور اور ہجیرہ کا پلان کیا۔ اس دورہ میں صدر بزنس فورم آزادکشمیر و گلگت بلتستان سردار عمران عزیز خان صاحب ، وائس پریزیڈنٹ جاوید عارف عباسی، صدر پریس کلب راولاکوٹ سردار عابد صدیق صاحب کے علاوہ بھی احباب شریک تھے۔ ہم جمعرات 11:30 بجے اسلام آباد سے نکلے اور راولاکوٹ میں سحری کے وقت پہنچے جہاں ہماری میزبانی سردار عاصم صاحب نے کی۔ جمعہ کے دن بارش اور سردی کے باوجود مختلف افراد سے ملاقاتیں کیں ۔ اور اگلی رات ہماری روانگی ضلع حویلی کے صدر مقام کہوٹہ کیلئے تھی۔ پی ڈبیلو ڈی ریسٹ ہاؤس میں ہماری رہائش کا بندوست کر دیا گیا تھا۔ جس کے لئے سارے رابطے عابد صدیق صاحب صدر پریس کلب راولاکوٹ نے کیے۔ ہجیرہ کراس کرنے کے بعد تیتری نوٹ کے آس پاس منڈھول، خاکی ٹیکری وغیرہ میں لائن آف کنٹرول پر لگی باڑ کی روشنی اور اپنی دھرتی پر قابض انڈین فوج کی چوکیاں جذبات، خیالات میں تلاطم پیدا کر رہی تھی۔ اپنی سرزمین پر ہندوستان کے ناپاک وجود کی موجودگی اور آر پار ایک ہی رنگ، نسل، مذہب، خاندان کیساتھ تعلق رکھنے والے کشمیریوں کو تقسیم کر کے انہیں جبر کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور کرنا سخت نا انصافی، ناقابل برداشت اور دکھ دہ بات ہے۔ اس کنٹرول لائن پر بسنے والے لوگ توپ کے دہانے ہر ہیں اور کسی بھی وقت ان کی جان، مال ، پراپرٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ لوگ دشمن کے رحم و کرم پر ہیں۔ مسلع افواج پاکستان کی اس کنٹرول لائن پر موجودگی انہیں احساس تحفظ فراہم کرتی ہے۔

رات بھر کے سفر کے بعد ہم بوقت سحری کہوٹہ پہنچے۔ فارورڈ کہوٹہ اور ملحقہ علاقوں کے بارے میں ہمارا تصور ایک پسماندہ ، مشکل ترین اور آفت زدہ علاقے کا تھا۔ لیکن عباسپور سے کہوٹہ اور پھر خورشید آباد تک روڈ انفراسٹرکچر دیکھ کر ہمارے دل میں بھی یہ خواہش ہوئی کہ کاش یہ دھیرکوٹ ہوتا۔ دھیرکوٹ میں بھی ہمیں ایسے نمائندے میسر آتے۔ البتہ کہوٹہ شہر ” پہاڑ” کے وسط میں پنجے گاڑے ہوئے ہے جہاں سیدھی چٹان کا پیٹ کاٹ کر گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ اسر گرد بھی مشکل ترین ڈھلوانیں ہیں۔ ۔ ایک ضلعی ہیڈکوارٹر کیلئے یہ جگہ قطعاً موزوں نہیں ہے کیونکہ یہاں کسی بڑی تعمیر کی اور توسیع کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس شہر اور صدر مقام کے گرد و نواح میں چند گز قدرتی پلین جگہ مشکل سے ہی موجود ہے۔ کہوٹہ حویلی کا صدر مقام ہے جہاں ابھی تک ڈسٹرکٹ و تحصیل ایڈمنسٹریشن کے دفاتر کرائے پر ہیں البتہ ڈپٹی کمشنر آفس تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ ایک منٹ کیلئے بھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوئی۔ پی ڈبیلو ڈی کا شاندار ریسٹ ہاؤس مہمانوں کی رہائش کیلئے دستیاب ہے۔ جس کا عملہ بہت اچھا ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی بہترین عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ البتہ علاج اور عملے کی سہولیات ناکافی ہیں۔ 27 ڈاکٹروں کی پوسٹوں میں سے صرف 5 حاضر ہیں جبکہ بقیہ غیر حاضر ہیں۔ لائن آف کنٹرول اور فائرنگ کی وجہ سے یہ علاقہ ہمیشہ خطرے سے دوچار رہتا ہے لیکن یہاں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ٹراما سینٹر، لیب کی ناکافی سہولیات ہیں۔ کہوٹہ سول بیوروکریسی کا سیاچن ہے۔ جس آفیسر یا اہلکار کی تعیناتی ہوتی ہے وہ اسے سزا سمجھ کر بد دلی سے کاٹتا ہے۔ آفیسر یا عملہ سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی فیملی ساتھ نہیں رکھ سکتا ۔ کہوٹہ دور دراز ہونے کی وجہ سے نظر انداز علاقہ ہے۔ یہ علاقہ تعلیمی لحاظ سے بہت بہتر ہے ۔ پونچھ ریاست اور قدیمی پونچھ شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔

پونچھ شہر یہاں سے پیدل چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے۔ کہوٹہ میں پونچھ یونیورسٹی کا کمیپس بھی واقع ہے جس کے ڈائریکٹر خواجہ فاروق صاحب ہیں اور انہوں نے بتایا کہ یہاں کے لوگ جو لوہر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہ کسی صورت بھی اپنے بچوں کو باہر پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اگر یہ کیمپس نہ ہوتا۔ ایچ ای سی کے چئیرمین ڈاکٹر مختار صاحب کا تعلق بھی کہوٹہ سے ہے جنکی کاوش سے یہ کیمپس قائم ہوا۔ کالج ، سکول اور یونیورسٹی ایک ہی جگہ پر واقع ہیں۔ یونیورسٹی کیمپس کی فی الحال کالج کی عمارت میں ہی قائم ہے۔ کہوٹہ شہر میں کوئی اچھا ہوٹل ابھی تک نہیں بن سکا۔ مجید ہوٹل کھانے پینے کیلئے مشہور ہے جو قدرے بہتر ہے لیکن وہ آزادکشمیر کے بازاروں میں قائم ہوٹلوں ہی کی طرح ہے۔ لیکن ضلعی صدر مقام کے لئے جس طرح کے اچھے ہوٹل کی ضرورت ہے وہ ابھی تک پوری نہیں ہو سکی۔ بہرحال چوہدری محمد عزیز کی محنت، سہولیات اور دشوارگزار علاقے کو انفراسٹرکچر کی سہولت دینا یقیناً ایک بڑا کارنامہ ہے ۔کہوٹہ میں ڈپٹی کمشنر راجہ عمران شفیق صاحب ، اسسٹنٹ کمشنر ، ایس ایس پی اور دیگر ضلعی آفیسران سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اس کے علاوہ ہم صدر انجمن تاجران چوہدری جمیل صاحب اور صدر جے آئی یوتھ بلال چوہان صاحب سے بھی ملے اس کے علاوہ اہم نشست پروفیسر خواجہ فاروق صاحب سے ہوئی جو ڈائریکٹر یونیورسٹی کیمپس کہوٹہ ہیں۔ جنہوں نے ضلع حویلی میں انویسٹمنٹ مواقع اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ وسائل کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ جنہیں استعمال میں لا کر ریاست اور علاقائی ترقی میں کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس ضلع میں ایک اہم سیاحتی مقام نیل فیری کی دریافت ہے جہاں گذشتہ سال فیسٹول کا انعقاد کیا گیا۔ اس فیسٹول میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے گوکہ سڑک کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ابھی وقت لگے گا ۔ ضلعی انتظامیہ اس سال دوبارہ اس فیسٹول کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہے۔

گذشتہ فیسٹول میں باہر سے جانیوالے سینکڑوں مہمانوں کو پرائیویٹ لوگوں کے گھروں میں ٹھہرایا گیا۔ ان کی رہائش اور کھانے پینے کیلئے اعلی انتظامات کیے گئے۔ جس کی وجہ سے کہوٹہ کی نیک نامی میں اضافہ ہوا۔ اب یہ فیسٹول ہر سال منعقد ہوگا۔ کہوٹہ شہر میں جب ہم داخل ہوئے تو ابھی سحری کا ارادہ کر رہے تھے کہ ” وہ” آ گئے۔ اور انہوں نے جب تک یہ پتہ چلتا اور ہم سے باضابطہ متعارف ہوتے ہماری خوب نگرانی کی۔ ہزاروں کے شہر میں چند اجنبی جب جاتے ہیں تو ہر شخص متجسسانہ طریقے سے دیکھ رہا ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت کم لوگ اس علاقےکا سفر کرتے ہیں۔ کہوٹہ میں جو بھی صاحب ثروت یا باوسائل لوگ ہیں وہ وہاں نہیں رہتے، پنڈی اسلام آباد یا دوسرے شہروں میں ہجرت کر جاتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس، موجودہ و ریٹائرڈ سیکریٹرز حکومت ، کاروباری شخصیات اور سیاسی قائدین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق ضلع حویلی سے ہے میں سے بہت کم اپنے علاقے میں رہتے ہیں۔ ضلع حویلی میں ان لوگوں کا مستقل قیام ہے جو بوجہ سرکاری ملازمت یا وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسری جگہ منتقل نہیں ہو سکتے۔ کہوٹہ میں سب سے بڑی برادری چوہدری ہیں جبکہ راٹھور دوسرے نمبر پر ہیں ان کے علاوہ خواجہ برادری اور کشمیری بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ کہوٹہ کے لوگ نردم گفتگو اور خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں۔۔۔۔۔۔ کہوٹہ میں کاروباری مواقع، سیاحت، خورشید آباد، ہجیرہ، عباسپور تک سفر کا احوال اگلی قسط میں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں