59

حکومتی آپٹکس اور ثقافتی گوگی بلال کی منتھلیاں

تحریر:ایڈوکیٹ ریاض
سب کچھ آپٹکس ہے ۔ ادارے بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو فی زمانہ لیس نکلا اس کی چوہدر کے لیۓ مفتوح ایندھن کا کام کرتے رہے۔ مالشیے سے قلم کا دھندہ کروانا اب معیوب نہیں سو ماننا پڑے گا دور ترقی کر گیا۔ دو سے تین دنوں میں ٹٹوؤں کو گھوڑا بنا کر میدان چھوڑا دیا گیا رقم اور تمغے حلال کرنے کے لیۓ کیاکیا حرام ہوا تاریخ کے اوراق میں جلی حروف میں یاد رکھا جاۓ گا۔ اطلاعات تو اب یہ تک ہیں کہ خود تمغے دلانے والوں کو اپنی تکلیف کا ادراک بھی انہی ٹٹوؤں سے ہوتا ہے مگر مجال کہ کبھی اپنی ذات کا ادراک ان ٹٹوؤں کو بھی ہوا ہو۔

دارالخلافائی منصفوں نے خود انصاف مانگ کر یہ واضح کردیا ہے کہ انصاف نام کی جنس عدالتوں سے ناپید ہوچکی ہے خدا جانے یہ منصف بددعاۓ ہیں کہ انہیں ظلم اور سہولت کاری کی سزا اتنی جلدی نہیں ملتی جتنا جلدی اونچی آواز میں سچ بولنے پر مل جاتی ہے۔منصفی ریاضت کا کام ہے مگر یہاں اجازت سے مشروط ہے۔ اوپر نیچے ہونے والے واقعات نےقبیح صفت اشخاص کو پھر باور کروایا ہے کہ علم اور انصاف کی اس خطے کو ضرورت نہیں ۔مگر ادھر کیا کیا جاۓ کہ آپٹکس کی حد تک مریم بی بی بضد ہیں کہ سب میرٹ اور انصاف ہوگالیکن کیسے ؟اس کا جواب عوام سمیت نئی سیاسی حکومت کو بھی ڈھونڈنا ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز پر عمومی طور پر باخبر بھی رہا جاتا ہے اور ایکشن بھی لیا جاتا ہے اور پنجاب جیسے صوبے میں یہ میڈیا سیاسی حکومت کی چوتھی پانچویں آنکھ ضرور ہوتا ہے اس میں کچھ طوطا چشم افراد بہتی کنگا سے عموماً مستفید رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف سینے میں رڑکنے والے قلم کارکردگی بڑھانے کے لیۓ بطور خامرہ معاون رہتے ہیں پنجاب کی نوکر شاہی میں گوگی فیم کئی سرکاری طرم خانوں کی فہرست جاری ہوئی ان میں سے ایک بلال حیدر بھی تھا جی بالکل وہی بلال حیدر جو اپنے خبت میں پنجاب آرٹس کونسل پر ہاتھ صاف کر رہا ہے اور اسکی سہولت کاری تو ہر سبارڈینیٹ کر ہی رہا ہے مگر سب سے زیادہ زائد المعیاد رنگ باز زاہد اقبال کر رہا ہے فیصل آباد میں میاں اور رانے بدلتا بدلتا جب وہ نگران حکومت کے عہد میں داخل ہوتے ہی ڈی سی آفس فیصل آباد کی ٹیم کی جانب سے دھر لیا جاتا ہے وجہ وہی جبلتی علت اور کمزوری یاد رہے کہ پنجاب کے تھیٹر کے حوالے سے لاہور کے متوازی چلنے والے شہروں میں فیصل آباد اور گوجرانوالہ سر فہرست ہیں عمومی طور پر ان شہروں میں دیہاڑیاں یا ریٹ نہ بھی زبان زدعام ہوں جاری رہتے ہیں اور رنگ باز زاہد اقبال کا خاصہ یہ ہے کہ کئی بار رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی ہر بار بچتا رہا بات تو یہاں تک بھی رہی کہ پروگراموں میں پیسے کھاتے کھاتے شہر کے کئی معززین کو چونا لگایا۔

پنجاب ٹیلنٹ ہنٹ،رینوویشن کی مد میں کام کے پیسے اور کچھ اور جبلتی لغزشیں۔۔۔نصرت فتح علی خان کے شہر اور ساندل بار کے اس علاقے میں جو چونا اس نے لگایا اسکی تفصیل وہاں کے سٹاف اور موجودہ افسران اکثر بتاتے اور خود ہی شرماتے ہیں۔بات تھی گوگی فیم بلال حیدر کی اور پہنچی رنگ باز تک۔اس خفیہ گٹھ جوڑ میں آج بھی خزانے کو چونا لگایا جا رہاہے۔فیصل آباد سے تھیٹرز میں مالی اور اخلاقی بد عنوانی پر لاہور آنیوالے رنگ باز کو ڈرامے کی اضافی ذمہ داری بلال حیدر نے دی اور خود ہی سرکاری کاغذوں اور خبری تردیدوں میں اسے کرپٹ بھی کہا کچھ عرصہ قبل کم عمر بچے بھرتی کرنے کی خبر پر جب میڈیائی چینلز کے چکر بلال نے لگاۓ تو خود کو محفوظ رکھنے کے لیے زاہد اقبال کے فیصل آباد سے مالی اور اخلاقی بدعنوانی سے جوڑ کر خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی پھر اسی کرپٹ کو لاہور کے تھیٹرز دیکر فراڈ اسسٹنٹ عثمان علی کو اس سے جوڑ دیا۔

وہ سرکاری ہر کارا جسے سٹاف کو اسکا جائز حق دیتے موت پڑ جاۓمیڈیا کی نشاندہی پر بھی ثقافتی گوگی بلال حیدر نے رنگ باز کو محفوظ رکھا وہ زاہد کے فرنٹ مین عثمان کی ویڈیو از خود اختیارات سے تجاوز کی شکل ہے کاغذات کی ہیرا پھیری سے لیکر روٹی ٹکر سے پیسے ٹُکنے والے چوہے ثقافتی طاعون پھیلا رہے ہیں مگر کوئی تو بات ہے کہ زاہد اقبال گوگی فیم کی آنکھ کا تارا ہے کیا بلال حیدر کو زاہد اقبال منتھلی پہنچاتا ہے؟ اسکا تعین بے دھڑک غیر ضروری تعمیراتی و ترقیاتی کام کے اخراجات،ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کی چوری پینا فلیکس ، سرکاری عمارت میں غیر قانونی کٹے درخت ،بے فضول غیر ثقافتی اقدامات اور پروگرامز کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرے گا یا پھر آئین پاکستان کے تحت معلومات تک رسائی اسکا تعین کرے گی مگر اذان کون دے؟اداراتی جتھا بندیاں اور سیاسی حکومتوں کی چپ نےثقافتی گوگی بلال حیدر اور رنگباز چوہوں کو چھوٹ دیکر ثقافتی طاعون کا دن مزید قریب کر دیا ہے ۔مریم بی بی ایک نظر پنجاب آرٹس کونسل اور ثقافت کی طرف بھی۔ چاہے آپٹکس کی حد تک!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں